تحریر:سبھاش گتاڑے
’’حق کی تلاش میں نکلنے والا انسان جب اپنی تلاش میں تھک گیا تو اس نے مندر، مسجد، چرچ بنایا‘‘
مرزا غالب اپنی ایک فارسی نظم میں
اس میں چھوٹی – چھوٹی باتوں کا بھی ذکر ہوا کہ کس طرح اسکولوں کے احاطے میں دعائیہ تقریبات کو انجام دینے سے اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والے ، کمیونٹیز کے طلباء کو علیحدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسےگروپوں کے خلاف اسکولوں کے اساتذہ، ہم جماعتوں وغیرہ کے ذریعہ کئے جارہے امتیازی سلوک سے ان کی زندگی کس طرح زیادہ تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور اسکول انتظامیہ کو اس کے بارے میں کیا قدم اٹھانے چاہئے۔
حالیہ دنوں میں، حکومت گجرات اور بعد میں کرناٹک کی طرف سے ہندوؤں کے مذہبی کتابگیتا کو شامل کرنے کی تجاویز کی روشنی میں، اس دستور کو تبدیل کرنے کے دوران، یہ بات زیادہ سے زیادہ واضح ہوتی گئی کہ کونسل کے مشوروں اور تجاویز سےہم کتنا دور چلے آئے ہیں؟
اس معاملے پر کرناٹک حکومت کے وزیر تعلیم کا بیان قابل ذکر ہے، جس نے ایک ہندو صحیفے کو ’اخلاقی سائنس‘ کے طور پر شامل کرنے کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ زمانوں سے – جبکہ اسکول اور یونیورسٹیاں نہیں تھیں – رامائن، مہابھارت جیسے گرنتھوں اور بھگوت گیتا نے ہمارے سماج کو ’مہذب‘ بنانے کا کام کیا ہے، یہ اسی سلسلے کی یہ اگلی کڑی ہے۔
یہ واضح ہے کہ یہ تجویز نہ صرف تاریخ کی غلط یا الٹ تفہیم پر مبنی ہے کیونکہ وہ اس بات پر قائم ہے کہ زمانوں ‘ سے بھارت ایک ہندو ریاست رہا ہے ۔
اور اس طرح ایک لمحے میں وہ جنوبی ایشیا کے اس حصے میں یہی پیدا ہو ئے جین، بدھ اور اس طرح کے دوسرے فرقوں کی طویل تاریخ کو مسترد کر دیتا ہے، اتنا ہی نہیں اپنے یہاں مذہبی استحصال ہراساں ہو کر پہنچے یہودیوں ، پارسیوں کی موجودگی کو یہاں تک کہ ذریعہ معاش کے لئے یا اپنے عقیدت کی تشہیر کے لئے پہنچے عیسائیوں، مسلمانوں کی صدیوں سے بسی آبادی کو اور اس کی چلتی ہوئی زندگی کو پوشیدہ کر دیتا ہے۔
لیکن کیا ان سلطنت، سلطنتوں کو ختم کرنا ممکن ہو گا، جن کا قیام مسلمان حکمرانوں نے کیا،یہاں تک قرون وسطیٰ کا اس دور کا سب سے بڑا سلطنت اکبر اعظم کا تھا ۔
اس بات کوبھی یاد رکھنا چاہیے کہ کرناٹک حکومت کا یہ من مانی فیصلہ – جس کے لیے کسی نے پوچھنے یا مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی ، چنندہ اسمرتی لوپ- (سلیکٹیو ایمنیشیا) کی ایک اچھی مثال ہے۔
واضح ہے کہ بی جے پی کی قیادت اور نہ ہی مرکز اور ریاست میں اس کے دیگر رہنما اس معاملے پر اپنا منہ کھولنا چاہتے ہیں، جب کچھ عرصہ قبل کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے ریاستی حکومت کے متنازع فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تب ہی اچانک بی جے پی کے کئی لیڈروں نے مذہب اور تعلیم کو الگ کرنے کی وکالت کی تھی۔
خیال رہے کہ ہندو راشٹر کی وکالت کرنے والے یہ لیڈر کچھ صبح سویرے ہی ’سیکولرازم کے پرچم بردار‘ بن گئے تھے۔
اور آج، جیسا کہ اسکول کے نصاب میں ہندو مذہبی گرنتھوں کو شامل کرنے پر بحث چل رہی ہے – جو مذہب اور تعلیم کے امتزاج کی واضح مثال ہے – ان تمام رہنماؤں نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔
ویسے تو بی جے پی کے ان لیڈروں اور حکومت چلانے والوں کا یہ بھولنا صرف اس بات تک ہی محدود نہیں ہے کہ ان کے اپنے اتحادی کیسے سیکولرازم کی زبان بول رہے تھے، بلکہ یہ بنیادی طور پر آئین ہند کی ان مختلف دفعات کے بارے میں پھیلا ہوا ہے، جن کے تحت مکمل طور پر ان کے اپنے اتحادی سیکولرازم کی زبان بول رہے ہیں۔ ریاست کے تعاون سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم دینے پر پابندی لگائی گئی ہے ۔
آئین کا آرٹیکل 28(1) کھلے عام اعلان کرتا ہے کہ ’ ریاستی فنڈ سے چلائے جارہے تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی ۔‘
بلاشبہ، بی جے پی حکومتوں کی بھولنے کی بیماری مختلف ہائی کورٹس کے حالیہ فیصلوں تک پھیلی ہوئی ہے جس نے بار بار مذہب اور تعلیم کی علیحدگی پر زور دیا ہے۔
یہی نہیں، ان سطور کو لکھتے وقت، سپریم کورٹ میں دائر عرضی ابھی شروع ہونا ہے، جس کا مرکز ملک کے کیندریہ ودیالیوں میں دعائیہ تقریب میں سرسوتی وندنا پڑھنے سے لے کر اس بات تک ہے کہ یہ دعا کس طرح آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
اخلاقی سائنس کے نصاب میں گیتا کا اطلاق ایک اور بنیادی سوال کو جنم دیتا ہے، جس کا تعلق تعلیم کے مقصد سے ہے، اور یہ تحقیق کرنا ہے کہ آیا نصاب میں گیتا کا تعارف تعلیم کے ان مقاصد کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کے مطابق تعلیم کا مقصد’ ‘جہالت کو دور کرنا اور علم کی روشنی میں داخل ہونا‘ ہے۔ ماہرین کے مطابق تعلیم دراصل سیکھنے کے عمل اور ‘علم، معلومات، اقدار، عقائد، عادات، ہنر‘ کے حصول میں سہولت فراہم کرتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکھنے کا عمل بچپن سے ہی شروع ہوتا ہے، جہاں بچہ اپنے تجربے سے سیکھتا ہے اور بالغ اس عمل کو کس طرح آسان بناتے ہیں ایک طرح سے اس کا تعلیم کی طرف پہلا قدم ہے، جو بعد میں باقاعدہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اگر ہم تعلیم کی اس حرکیات کو معروضی طور پر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ تعلیم ذہن کو آزاد کرنے، اسے کھولنے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا ذریعہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس کا کوئی آخری مقصد نہیں ہوسکتا، کیا جہالت کو دور کرنے کا کوئی آخری مقصد ہوسکتا ہے؟
اپنے دور کے عظیم سائنس دان اور ریاضی دان نیوٹن کا یہ بیان نمایاں ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ میں نے اب تک جو علم حاصل کیا ہے وہ سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی صرف ایک ذرہ مقدار ہے جب کہ ساحل پر پھیلی ہوئی وسیع ریت کی تحقیق ابھی باقی ہے۔
علم حاصل کرنے کی یہ لامحدودیت ایک طرح سے مذہب کے خلاف ہے۔
جہاں تعلیم انسان کو آنکھیں کھولنے پر اکساتی ہے، ذہن پر سے پابندیاں ہٹانے میں مدد دیتی ہے اور بلا خوف سوچنے کی ترغیب دیتی ہے، اس کے برعکس، مذہب اور مذہبی تعلیمات ہمیں حتمی سچائی پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ آنکھیں بند کر کے عبادت کرو، بغیر کسی سوال کے۔
اگر ہم تعلیم کو ‘ذہن کے دروازے کھولنے کے عمل کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جس سے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو نئی اڑان ملتی ہے، تو مذہب اس کے بالکل برعکس عمل کی مثال بن کر سامنے آتا ہے، جہاں صرف ذہن کے دروازے بند رکھنے سے آزاد سوچ سے انکار پر زور دیا جاتا ہے۔
اور جب آپ کسی بھی نصاب میں مذہبی کتابوں کے پڑھنے کو لازمی قرار دیتے ہیں تو آپ ایک طرح سے تعلیم کے بنیادی مقصد کی نفی کر رہے ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایک سیکولر لیکن کثیرالذہبی معاشرے میں ایک مخصوص مذہبی صحیفے کی تعلیم خواہ اخلاقی سائنس کے نام پر ہی کیوں نہ پڑھائی جاتی ہو، ہم اس عمل کو کسی دوسرے عمل سے تشبیہ نہیں دے سکتے جہاں مختلف مذاہب کی تعلیمات، ان کی ترقی کو تاریخ یا سماجی سائنس کے مضمون میں پڑھایا جانے لگا۔
اگر کوئی یہ کہنا شروع کردے کہ ہم کسی بھی حال میں مذہبی صحیفے کو تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچنے دیں گے تو یہ ایک طرح کا انتہا پسندانہ موقف ہوگا اور جس کا نتیجہ ذہن طفلپر بھی بالکل الٹا ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مذہب جیسی سماجی مظہر کے عروج اور اس کے تنظیمی ہوتے جانے اور خدا کے بدلتے ہوئے تصورات کے بارے میں کبھی بھی جان نہیں سکے گا۔
ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی نہیں کر سکے گا کہ کس طرح جدیدیت کی آمد -جس کے تحت ایک خود مختار ،خود ساختہ شخص کا عروج ہوا ، جوعقلیت سے لیس تھا ۔ کس طرح مذہب کی جڑ پر ہی حملہ کیا اور 21 ویں صدی کی تصویر دہائی میں اب مذہب زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ذاتی معاملہ بنتا گیا ہے اور کسی بھی باہری ایجنسیوں کو خاص شخص کے انتخاب میں کوئی مشورہ نہیں دینا چاہئے ۔
,
آخر : گیتا کو نصاب میں ’ اخلاقی سائنس‘ کے مضمون کے ماتحت شامل کرنے کے بہانے اس مسئلے پر بھی بات چل پڑی ہے کہ کیا واقعی مذہب کسی کو اخلاقیات بناتا ہے ۔
درحقیقت اس معاملے میں ایک وسیع وجدان ہے، جو کسی معروضی مطالعہ یا سروے پر مبنی نہیں ہے۔ اس تناظر میں جتنے بھی محدود سروے کیے گئے ہیں، ان کے نتائج زیادہ سے زیادہ مبہم ہی کہے جا سکتے ہیں۔
کسی خاص شخص کے اخلاقی رویے کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسے کیا اچھا لگتا ہے، قابل قبول ہے اور کیا برا یا ناقابل قبول ہے۔ اور اخلاقیات کی یہ سمجھ بھی وقت اور جگہ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
کسی زمانے میں کسی دوسرے مذہب یا دوسرے فرقے سے نفرت اخلاقیات میں شامل تھی لیکن دور جدید میں یہ چیز بدلتی نظر آتی ہے۔
ویسے مذہب کی اخلاقیات کے حامی یہ مختلف مذاہب کے ماننے والے آسانی سے بھول جاتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے مذہب اور عقیدے کے نام پر بڑے بڑے قتل عام ہوتے رہے ہیں، کسی ایک مذہب کے عقائد سے اختلاف کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے۔ عوامی طور پر زندہ جلا دیا گیا ہے، ان لوگوں کو ‘دوسرے سمجھا جاتا ہے ‘’نسلی پاکیزگی‘ کے ذریعے مٹا دیا گیا ہے۔
تعلیمی اداروں کے نصاب میں مذہبی صیحفوں کی شمولیت، طلبہ کو ’اخلاقی‘ بنانے کے لیے، اس کے بالکل الٹا نتائج ہو سکتے ہیں۔
ذرا تصور کریں کہ اگر مندرجہ بالا صحیفہ ایک خاص قسم کے اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ بندی کو جائز قرار دیتا ہے، دوسروں کے خلاف تشدد – جیسا کہ ہر صحیفے میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے – تو کیا یہ نہ صرف طلبہ کے ذہن و دماغ کو آلودہ کرے گا بلکہ اس کی طرف دیکھنے کے بجائے مذہب کو تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو وہ بھی اسے حتمی سچ مانتا رہے گا۔
یہ بھی واضح ہے کہ ہٹلر اور نازیوں نے لوتھر کے ان نظریات کا خوب استعمال کیا اور 20ویں صدی کے پہلے نصف میں یہودیوں پر وحشیانہ مظالم ڈھائے، جنہیں بعد میں ہی روکا جا سکا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)