نئی دہلی (صلاح الدین زین)
بھارت کے متعدد علاقوں میں سخت گیر ہندو ہجوم کی جانب سے مسلمانوں پر بلا اشتعال حملے، ان کے خلاف مظاہرے اور کارروائیاں اب ایک معمول بن چکا ہے۔ آئے دن، کبھی ٹوپی پہننے کی وجہ سے تو کبھی ہندوؤں کے محلے میں سبزی فروخت کرنے یا پھر ہندو قوم پرستی کے نام پر ان کے ساتھ مار پیٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح کے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں جس سے خوف کے ماحول میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت یا پھر حکام کی جانب سے ایسے واقعات کی مذمت تک نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ آزاد خیال مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں اکثریتی طبقے کی جانب سے جبری طور پر مسلمانوں سے اپنی رائے منوانے کی ایک نئی رسم چل پڑی ہے جس سے، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے، بھارت کی زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گزشتہ اتوار ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں دو نو عمر مسلم لڑکوں کو راستے میں روک کر اس قدر مارا پیٹا گیا کہ وہ اب بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ دونوں نے ٹوپی پہن رکھی تھی اور راستے میں ان کے اسکوٹر سے ایک ہندو فیملی کے اسکوٹر کو دھکا لگ گیا تھا۔ آس پاس کے ہندوؤں نے اتنا مارا کہ وہ اب بھی اسپتال میں ہیں۔ تمام شکایتوں کے باوجود ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گيا ہے۔
ایک روز قبل ہی کی بات ہے دہلی سے متصل غازی آباد کے ایک مندر کے احاطے میں دس برس کا مسلم لڑکا غلطی سے پہنچ گيا تھا، جسے پجاریوں نے اس الزام کے ساتھ پولیس کے حوالے کیا کہ وہ مندر میں جاسوسی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
حالانکہ پولیس نے مندر کی انتظامیہ کے ان الزامات کو بے بنیاد بتایا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کم سن بچہ اپنے اہل خانہ سے ملنے ایک اسپتال جا رہا تھا اور غلطی سے مندر کے احاطے میں چلا گیا تھا۔ تاہم مندر کی انتظامیہ اپنے الزام پر مصر ہے اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
چند روز قبل ہی ایک روایتی گربا رقص میں مسلم طلبہ کی شمولیت کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیم بجرنگ دل نے ہنگامہ کیا جس کی وجہ سے پولیس نے چار مسلم طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ حالانکہ جس کالج میں یہ پروگرام تھا یہ اسی کالج کے طالب علم تھے، تاہم ہندوؤں کے ایسے سخت گروپ مسلمانوں کی شمولیت کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔
پولیس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جس کالج میں پروگرام تھا مسلم طلبہ وہیں پڑھتے ہیں اور انہیں اس میں آنے کی دعوت بھی ملی تھی، لیکن ہندو گروپ کی مخالفت اور شکایت کے سبب ان کے خلاف کارروائی کرنی پڑی۔
ان تازہ واقعات کے علاوہ بھارتی مسلمانوں کی داڑھی نوچنے، ان سے جے شری رام کے زبردستی نعرے لگوانے، گوشت کھانے یا فروخت کرنے یا پھر نماز پڑھنے کی جگہ کے حوالے سے مذہبی منافرت اور فسادات ایک عام بات ہے۔
بھارت میں اس وقت ہندوؤں کا مذہبی فیسٹیول ‘نو راتری’ چل رہا ہے اور ہندوؤں کا ایک طبقہ اس دوران گوشت کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ تاہم بہت سے ہندو گروپ اب اس دوران کئی علاقوں میں گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دہلی کے مضافاتی علاقے گڑ گاؤں اور دواریکا جیسے علاقوں میں بھی ہندوؤں نے گوشت کی فروخت پر پابندی کے لیے مظاہرہ کیا اور وہاں دکانیں بند ہیں۔
یو پی کے ضلع سہارن پور، جہاں دیوبند جیسا بڑا اسلامی ادارہ قائم ہے اور مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے، وہاں بھی گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ گزشتہ رز سخت گیر ہندوؤں نے وہاں احتجاج بھی کیا تھا۔
ماہ اگست کے دوران بھی، پورے بھارت میں مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کے متعدد واقعات ہوتے رہے، انہیں قتل کیا گیا، ہراساں کیا گیا، سرعام ذلیل کیا گیا، "جئے شری رام” اور "وندے ماترم” کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔
کسی پر ’مہندی جہاد‘ ، ’چوڑی جہاد‘ ، ’منشیات جہاد‘ اور کسی ’معاشی جہاد‘ جیسے الزامات کے تحت اجمیر سے کانپور اور’’ندور سے دہلی تک مختلف ہندوتوا گروپ اپنی اکثریتی برادری کا رعب جھاڑتے ہوئے مسلمانوں کو بھارتی معاشرے میں ان کا صحیح مقام دکھانے کی کوشش کرتے رہے۔‘‘
یہ سب واقعات مین اسٹریم ہندوستانی میڈیا میں قلم بند ہوتے رہے ہیں اور بہت سے ٹی وی چینلوں پر نشر بھی کیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا تشدد کی ایک اور شکل یہ ہے کہ مسلمانوں کا معاشی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ اس حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر مقبول ہیش ٹیگ، ٹرینڈز اور ویڈیوز دستیاب ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کے کاروبار کو بائیکاٹ کرنا۔
بھارت کے معروف سماجی کارکن جان دیال کہتے ہیں کہ یہ تمام واقعات بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کو تار تار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کا، ’’ایک خاص سیاسی گروپ اپنے سیاسی مفاد کے لیے اس طرح کی حرکتوں کو فروغ دے رہا ہے۔ ایک خاص برادری کے مذہب کا استحصال کر کے، ایک کو اپنا دوست اور دوسرے کو دشمن بتا کر، سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ یہ بی جے پی ہے اور کوئی نہیں۔‘‘
جان دیال کے مطابق ہندوتوا کے لیےگنگا جنمی تہذیب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ’’بے روز گاری، مہنگائی، تعلیم اور دیگر ترقیاتی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ملک کا دشمن بتایا جا رہا تاکہ عوام اسی مذہبی منافرت میں الجھی رہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں جان دیال کا کہنا تھا کہ اقلیتی برادری میں خوف تو ہے، تاہم یہ بہت دن نہیں چل سکتا۔ ’’ہٹلر نے بھی اسی طرح کا بہت کچھ کیا تھا تاہم اب وہ نہیں رہا۔ یہ بھی نہیں چلے گا۔ مستقبل میں وہی رہے گا جو عوام کی فلاح و بہبود چاہے گا۔‘‘
ڈی ڈبلیو ہندی سروس کے تجربہ کار صحافی چارو کارتیکے کہتے ہیں کہ انہیں بھی موجودہ صورت پر کافی تشویش لاحق ہے کہ آخر اس ملک میں یہ سب کچھ اتنی ڈھٹائی کیسے ممکن ہے۔ ان کے مطابق،’’ہندو اکثریتی طبقے کی جانب سے مسلمانوں پر جبرا اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے کے مترادف ہے، تاکہ، ’’مسلمانوں کو پبلک اسپیس سے معدوم کیا جا سکے۔‘‘
(بشکریہ :ڈی ڈبلیو )