اسرائیل میں حریدی جماعتوں (انتہائی قدامت پسند یہودی فرقہ) نے دھمکی دی ہے کہ اگر حریدی نوجوانوں کو اسرائیلی فوج میں بھرتی سے مستثنیٰ قرار دینے والا قانون منظور نہ ہوا، تو وہ قبل از وقت انتخابات کی دعوت دیں گی۔
یہ وعدہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ’’یہودت ہتوراہ‘‘ اور ’’اگودت یسرائیل‘‘ جماعتوں نے ’’شاس‘‘ پارٹی کے ساتھ مل کر کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمان) میں حکومت کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے پیش کیے گئے تمام بل واپس لے لیے گئے ہیں۔ ایسی صورت حال عام طور پر حکومتی اتحاد سے علیحدگی اور حکومت کے خاتمے کی طرف پہلا قدم سمجھی جاتی ہے۔دوسری طرف، "عوتمات لی یسرائیل” (وزیر ایتامار بن گوئر کی جماعت) اور ’’صہیونیت مذہبیہ‘‘ (وزیر بتسلئیل سموٹرچ کی جماعت) نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں جنگ روک دی گئی یا اسے ختم کر دیا گیا تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔دونوں پہلو نیتن یاہو کو، جنھیں اسرائیل میں اتحادی سیاست کے ماہر کے طور پر ’’چالاک‘‘ یا ’’جادوگر‘‘ کہا جاتا ہے، ایک پیچیدہ مشکل میں ڈال چکے ہیں۔
فی الحال اسرائیل میں اپوزیشن کمزور ہے، اس کے پاس کنیسٹ میں صرف 52 نشستیں ہیں، جب کہ حکومتی اتحاد کے پاس 68 نشستیں ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی اور حماس کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے حوالے سے اپوزیشن نیتن یاہو کو حکومت برقرار رکھنے کے لیے ایک "حفاظتی جال” مہیا کر رہی ہے، تاکہ کم از کم جنگ بندی تک حکومت قائم رہے، جس کے بعد انتخابات کی تاریخ پر بات ہو سکے۔
ادھر حریدی نوجوانوں کو فوجی خدمت سے مستثنیٰ کرنے والے قانون پر حکومتی اتحاد کے اندر ہی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کئی ارکان اسے ناقابل قبول سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں حریدی طبقہ فوجی ذمہ داریاں اور ’’ریاست کا دفاع‘‘ دوسرے اسرائیلی شہریوں کی طرح نہیں اٹھاتا۔ دوسری طرف، حریدی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دعائیں اور تورات کی تعلیم اسرائیل کو بچا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے بڑے ربّیوں نے یہاں تک کہا کہ صرف ان کی دعائیں اسرائیل کو محفوظ رکھتی ہیں، فوج کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے احکامات کو مسترد کرنے کا کہا ہے۔
اس سلسلے میں نیتن یاہو کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ "یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اور اس کے حل کے لیے بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے والے ماہرین کی ضرورت ہے”۔ نیتن یاہو دن رات ایک کیے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی صورت میں 61 ارکان کی کم از کم اکثریت کے ساتھ حکومت کو قائم رکھا جا سکے۔ وہ "شاس” جماعت (جس کے پاس 10 نشستیں ہیں) کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوجی استثنیٰ کے قانون کی وجہ سے حکومت سے علیحدگی نہ اختیار کرے۔ اس صورت میں نیتن یاہو کو اگرچہ محض معمولی اکثریت حاصل ہو گی، لیکن وہ پھر بھی مستحکم رہے گی۔نیتن یاہو کے ایک قریبی مشیر کے مطابق اگر غزہ میں جنگ ختم کی گئی تو حکومتی اتحاد کی دو اہم جماعتیں علیحدہ ہو جائیں گی، اپوزیشن کے ساتھ مل کر قبل از وقت انتخابات کی تاریخ طے ہو جائے گی۔
دوسری طرف، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر غزہ میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا اور اپوزیشن نیتن یاہو کو "حفاظتی مہلت” دے، تو اسے تقریباً 60 دن کی "راحت” ملے گی۔ اس کے بعد وہ کسی واقعے کا بہانہ بنا کر دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں اور سموٹرچ اور بن گوئر کو حکومت میں واپس لا سکتے ہیں۔
اسی تناظر میں نیتن یاہو کے ایک سینئر مشیر نے کہا کہ "اگر حماس معاہدے سے انکار کر دے تو ہماری حکومت بچ جائے گی، لیکن دوسری طرف امریکہ کی طرف سے ہم پر دباؤ ہے کہ ہم معاہدے پر راضی ہو جائیں، اور ہم نے حالیہ تجویز پر واقعی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ حماس اس تجویز کو امریکیوں سے کچھ شرائط حاصل کر کے قبول کر لے گی”۔انھوں نے مزید کہا کہ "یہ 60 دن اور قیدیوں کی رہائی حکومت کو کچھ مہلت دے گی، جس کے نتیجے میں حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط اور قومی حلقوں میں مقبول ہو کر ابھر سکتی ہے”۔نیتن یاہو اس وقت مسلسل بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں اور وہ ہر ماہ دو سے تین دن عدالتوں میں گزارتے ہیں۔ ان پر امریکہ کا بے حد دباؤ ہے کہ وہ غزہ کی جنگ ختم کریں اور ایران سے مذاکرات میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ ساتھ ہی اسرائیلی معاشرے میں بھی سخت غم و غصہ ہے اور روزانہ قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔