امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے جون میں ہونے والی حالیہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں تہران کے قلب میں ایرانی قومی سلامتی کونسل کے ایک انتہائی خفیہ اجلاس کو نشانہ بنایا ، جس میں صدر مسعود پزشکیان اور دیگر اعلیٰ قیادت شریک تھی ۔یہ کارروائی 16 جون کو ہوئی، جب جنگ اپنے چوتھے روز میں تھی۔ اجلاس ایک پہاڑی کے نیچے سو فٹ گہری محفوظ پناہ گاہ میں ہو رہا تھا۔
اجلاس کے شرکاء میں صدر مسعود پزشکیان، عدلیہ کے سربراہ، وزیر انٹیلی جنس اور فوجی قیادت شامل تھی۔ سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اجلاس کے کچھ ہی دیر بعد اس مقام پر چھ بڑے بم گرائے۔ حملے میں اعلیٰ قیادت محفوظ رہی، تاہم کئی محافظ ہلاک اور باہر شدید افراتفری پھیل گئی۔
اسرائیل نے تہران کے خفیہ اجلاس کا سراغ موبائل فونوں سے لگایا۔ اجلاس کے شرکاء تو موبائل فون استعمال نہیں کر رہے تھے مگر ان کے محافظوں اور ڈرائیوروں نے حفاظتی قواعد کو نظرانداز کیا۔ ان کے فونوں اور سوشل میڈیا سرگرمیوں سے خفیہ مقام کا سراغ ملا۔ سابق نائب صدر ساسان کریمی کے مطابق "قائدین محتاط رہے مگر محافظوں کی لاپروئی تباہ کن ثابت ہوئی۔”
اخبار کے مطابق یہ معلومات پانچ ایرانی حکام، دو پاسداران انقلاب کے افسران اور نو اسرائیلی عسکری و انٹیلی جنس ذرائع سے حاصل کی گئیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ موبائل فونوں کے بے احتیاطی کے ساتھ استعمال نے اسرائیل کو نہ صرف سائنس دانوں اور فوجی کمانڈروں تک پہنچایا بلکہ بعض کو نشانہ بنانے میں بھی مدد دی۔ ایرانی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صرف ایک مثال ہے، جبکہ اصل میں اسرائیل نے کئی برسوں میں جاسوسی اور تکنیکی ذرائع سے ایران کے سب سے حساس اداروں تک رسائی یقینی بنائی ہے۔جون کے دوران اسرائیل کئی اہم فوجی عہدے داران اور ایٹمی سائنس دانوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایرانی نائب صدر و سابق وزیر مصطفی ہاشمی طابا کے مطابق "دراندازی ریاست کی اعلیٰ ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔” اسی تناظر میں ایران نے فوج، انٹیلی جنس اور حکومتی اداروں میں خفیہ گرفتاریاں کیں، جن میں اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایک ایٹمی سائنس دان روزبہ فادی کو حال ہی میں جاسوسی کے الزام میں پھانسی دی گئی، اگرچہ اسرائیل نے اس سے براہ راست تعلق کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
اگرچہ تہران میں کیے گئے حملے میں بڑے رہنما محفوظ رہے، مگر اس واقعے نے ایرانی سلامتی اداروں کو سخت دھچکا پہنچایا۔ یہ حملہ ایران کی قومی سلامتی اور خفیہ اجلاسوں پر اسرائیلی دراندازی کی بڑی مثال ہے-مبصرین کے مطابق اسرائیل نے قلیل عرصے میں جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہائیوں پر محیط "جنگ” اب زیادہ کھلا اور اسٹریٹجک رخ اختیار کر چکی ہے، جو خطے کے طاقت کے توازن پر دیرپا اثر ڈال سکتی ہے








