تحریر: کلیم الحفیظ-نئی دہلی
ظلم ہر سماج میں ناپسندیدہ ہے۔کوئی بھی انسان ظالم سے محبت نہیں کرتا۔اس کے باوجود تاریخ کے ہر دور میں ظلم ہوتا رہا ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ جب اسے طاقت حاصل ہوجاتی ہے تو اپنے ہی بھائیوں پر ظلم کرنے لگتا ہے۔الا یہ کہ وہ خوف خدا رکھتا ہو۔اللہ کا خوف ہی طاقت ور کو ظلم سے باز رکھتا ہے۔اسی لیے جب جب ایسے حکمراں ہوئے جو اللہ کا خوف رکھنے والے تھے تب تب ظلم اور ظالم کو اپنے پائوں سمیٹنے پڑے۔ظلم کرنا تو ظلم ہے ہی ،ظلم سہنا بھی در اصل ظلم ہے ۔ظلم سہنے سے ظالم کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔وہ مزید ظلم کرتا ہے۔ظلم کی عمر اگرچے کم ہوتی ہے۔لیکن اس کے نقصانات دیر تک برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ہر دور میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے بھی پیدا ہوتے رہے۔یہ نظام قدرت ہے۔اللہ ایک مدت تک ہی ظالم کو مہلت دیتا ہے۔جب ظالم حد سے تجاوز کرتا ہے تو اس کے مقابلے پر کھڑے ہونے والوں کی حمایت کرکے ظلم کا خاتمہ کردیتا ہے۔خود ہمارے ملک میں انگریزوں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی اس نے مدد کی ۔جس کی بدولت اس ظلم سے نجات ملی اور آزادی کی صبح نصیب ہوئی۔
ظلم کی بہت سی شکلیں ہیں ۔ایک شکل یہ ہے کہ انسانوں کی آزادی ہی چھین لی جائے۔ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے۔اسے غلام بنانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔آزادی یہ ہے کہ انسان اپنی پسند کی زندگی گزارے،اپنی پسند کا کھائے پئے،اسے جو اچھا لگے وہ پہنے،اس کی خاندانی زندگی آزاد ہو۔ا س کی مذہبی زندگی آزاد ہو،وہ چاہے ایک خدا کو مانے یا ہزار خدائوں کو ۔اگر کوئی حکومت یا گروہ باقی انسانوں پر اپنی پسند کو اختیار کرنے پر مجبور کرے یا ایسا ماحول بنائے جس سے انسان کی پسند متأثر ہوتی ہو،یا وہ اپنی پسند اور خواہش پر عمل کرتے ہوئے ڈرتا ہو تو یہ ظلم ہے۔بھارت میں آج یہی ہورہا ہے۔اقلیت کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اکثریت کی پسند اور خواہش کے احترام میں اپنی پسند سے دست بردار ہوجائے،قانون بنا کر اسے پابند کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ دے ۔ملک میں حلال او ر حرام کی بحثیں،اذان،لائوڈ اسپیکر اورحجاب پر پابندیاں،اسی زمرے میں ہیں۔لوگ جب سچ بولنے سے ڈرنے لگیں توظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ابھی چند دن پہلے عبدالسلام نامی نوجوان کو محض اس لیے گرفتار کرلیا گیا کہ اس نے فیس بک پرسماج وادی کے مسلم ممبران اسمبلی کو پارٹی کا غلام کہہ دیا تھا۔دوسری طرف مسلمانوں کو گالیاں دینے والے،اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے ،سماج کو تقسیم کرنے والی زبان بولنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔
ظلم کی ایک شکل معاشی ہے۔ملک میں معاشی ظلم بھی جاری ہے۔جس کا نتیجہ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔سرکاری املاک کو فروخت کرنا،سرکاری اداروں کو نجی کمپنیوں کو دینا،ٹیکس میں اضافہ،چھوٹے کاروبار ختم کرنا،ایسے قوانین بنانا جس سے چھوٹے کسان غلام ہوجائیں،یہ سب معاشی ظلم ہے ۔اسی ظلم کے خلاف کسانوں کا آندولن ہوا تھا۔جو کسی حد تک کامیاب ہوا۔اس وقت روپے کی قدر گزشتہ ستر سال میں سب سے کم ہے۔جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہردم اضافہ ہورہا ہے۔معاشی ظلم ملک کی کمر توڑ دیتا ہے ۔ہمارے پڑوسی ملک سری لنکا کی صورت حال ہم سب کے سامنے ہے۔آج وہاں کے شہری دانے دانے کو محتاج ہوگئے ہیں۔پورا ملک سڑک پر آگیا ہے۔حکمرانوں کے گھر جلائے جارہے ہیں۔انھیں کار کے ساتھ جھیل میں دھکا دیا جارہا ہے۔جب آپ کسی کے منھ سے نوالہ چھینیں گے تو یہی رد عمل ہوگا۔
ظلم کی ایک شکل تاریخ پر ظلم ہے۔تاریخ مٹانا اور بدلناظلم ہے۔بدقسمتی سے ہمارا ملک اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔وہ ملک کے سابق حکمرانوں کو جو یہیں پیدا ہوئے اوریہیں دفن ہوگئے حملہ آور کہہ کر ان کے ہم مذہبوں پر ظلم کو جائز ٹھہرارہا ہے۔ان کے بارے میں جھوٹی باتیں لکھ کر قوموں میں عداوت پیدا کررہا ہے۔یہ عداوت اس حد تک ہے کہ ان کے بسائے ہوئے شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں،ان کے نام سے بنی سڑکوں کے نام تبدیل کیے جارہے ہیں۔ان پر مندر توڑنے کا بے بنیادالزام لگایا جارہا ہے ۔تاریخ کے ساتھ یہ ظلم انتہائی خطرناک ہے۔اول تو ملک کے حکمرانوں کو ماضی کا حساب حال سے لینے کا کوئی حق ہی نہیں،نا ہی موجودہ نسل اپنے اسلاف کے لیے جواب دہ ہے ۔مگر اپنے سیاسی مفاد کو حاصل کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔
ملک میں تعلیم یافتہ افراد پر بھی ظلم ہورہا ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی چائے بیچنے جیسا کاروبار کرنے پر مجبور ہونا انتہائی شرم کی بات ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اہل علم سے استفادے کا کوئی منصوبہ نہیں،ہم اپنے اعلیٰ دماغوں کو ضائع کررہے ہیں۔یہ تصویر ایک طرف بے روزگاری کو واضح کررہی ہے،دوسری طرف تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو کم کررہی ہے۔تعلیم یافتہ افراد کی یہ درگت دیکھ کر نئی نسل تعلیم کی طرف کس طرح راغب ہوگی ؟تعلیمی نصاب سے اخلاقیات کو نکال دینا بھی ظلم ہے۔تعلیمی اداروں پر مختلف غیر ضروری پابندیاں لگانا بھی ظلم ہے۔اس کے علاوہ کسی ملک میں کرپشن کا ہونا بھی ظلم ہے ۔کرپشن خود ظلم ہے۔اس کی وجہ سے حق دار اپنے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔مریض اپنی جان سے جاتا ہے،انصاف خرید لیا جاتا ہے۔لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں۔
ظلم خواہ کسی بھی شکل میں ہواور کسی پر بھی ہو ۔اسلام کی تعلیم ہے کہ اس کے خلاف کھڑا ہواجائے۔ایک مومن نہ ظلم کرتا ہے ،نہ سہتا ہے اور نہ ہونے دیتا ہے۔اگر اس کے پاس طاقت ہوتی ہے تو بزور شمشیر ظلم کو روکتا ہے ،وہ اپوزیشن میں ہوتا ہے تو اس کے خلاف زبان و قلم استعمال کرتا ہے۔کہیں مغلوب ہوتا ہے تو دل سے ظلم کو برا سمجھتا ہے ،اس کی آنکھیں ظلم دیکھ کر اشکبار ہوجاتی ہیں اور دل ٹرپ اٹھتا ہے۔اسلام اور ظلم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر ہورہے ظلم کا رونا روئیں بلکہ انھیں ملک کے دیگر شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے والے قوانین کے خلاف بھی کھڑے ہونا ہے۔ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو مضبوط کرنا ہے۔صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چپ چاپ ظلم سہتے جائیں ،بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں اور ظالم کے سامنے ڈٹ جائیں ،یہاں تک کہ ظلم اور ظالم کا خاتمہ ہوجائے۔بعض مصلحین اس وقت صبر کی تلقین کرتے ہوئے نصیحت کررہے ہیں کہ ظلم کے خلاف سڑکوں پر نہ آئیں،ٹی وی مباحثوں میں شرکت نہ کریں،اپنی طرف سے قانونی کارروائی نہ کریں۔ان نصیحتوں کے نتائج بزدلی ،پژمردگی اور کم ہمتی کی شکل میں نکلیں گے ۔اگر آپ ظلم کے خلاف سڑکوں پر نہیں آئیں گے تو ظالم کو کیسے روکیں گے ؟اگر آپ ٹی وی مباحثوں میں نہیں جائیں گے تو اہل ملک کے سامنے صحیح بات کیسے آئے گی؟بزدلی نہیں پامردی دکھائیے۔طاقت حاصل کرکے انصاف قائم کیجیے۔ظالم نے سیاسی طور متحد ہوکر ظلم کا راستا اختیار کیا ہے آپ بھی اسی راستے پر چل کر ظلم کا خاتمہ کیجیے۔بقول حفیظ میرٹھی:
سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آئو میدان میں غازیوں کی طرح
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)