تحریر: کلیم الحفیظ-نئی دہلی
ملک کے حالات کی سنگینی اور اس کے دوررس اثرات و نتائج سے ہر با شعور شہری واقف ہے۔ملک میں اس وقت جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔سیکولرزم کا نام لینے والی تمام پارٹیاں اترپردیش میں اپنی انتخابی مہم کا آغازبھگوان رام کے آشیرواد سے کررہی ہیں۔جمہوریت کے سارے ستونوں میں فرقہ پرستی کی دیمک لگ گئی ہے۔فرعونیت ننگا ناچ ناچ رہی ہے۔عدل وانصاف،امن وقانون رفتہ رفتہ تاریخ کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بدتر ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے کا درد جھیل رہی عوام کو مذہب کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ملک میں مسلمان بھی اپنے تاریخی دور سے گزررہے ہیں۔شاید تاریخ میں کبھی منافق مسلمانوں کی اتنی تعداد آسمان نے نہیں دیکھی جتنی ہم دیکھ رہے ہیں۔خود غرضی اور مفاد پرستی اپنے عروج پر ہے۔مذہبی ادارے مایوسی کا شکار ہیں اور مسلم سیاسی رہنما اپنے ہی خون سے سینچی ہوئی سیاسی جماعتوں میں بے وقعت ہوکر جینے پر مجبور ہیں۔
میرے نزدیک آزاد بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ رہی کہ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کو کنارے لگاکر نام نہاد سیکولرمسیحا ئوں پر اعتماد کیا۔ہماری مذہبی اور ملی جماعتوں نے ان کے لیے ووٹ کی اپیلیں جاری کیں۔مسلمانوںنے آزاد،نہرو،اندرا اورراجیوگاندھی پریقین کیا۔کانگریس کے ہاتھ میں ہاتھ ایسا دیا کہ ہاتھ کٹا دیالیکن چھوڑا نہیں۔بابری مسجد انہدام کے بعد اتر پردیش میںملائم سنگھ اور مایاوتی،بہار میں لالو پرساد، مغربی بنگال میں جیوتی بسو،ان کے بعد ممتا،دہلی میں شیلا دکشت، ان کے بعد اروند کیجریوال یہ سب مسلمانوں کے مسیحا بن کر اٹھے اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔مسلمان شمال سے جنوب تک نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے فریب کا شکار ہوتے رہے۔تمام سیکولر پارٹیاں بی جے پی کا خوف دکھا کر ٹھگتی رہیں۔مسلمان مسلم لیگ،مجلس اتحاد المسلمین اور دوسری مسلم پارٹیوں کویہ کہہ کر نظر انداز کرتے رہے کہ ان کو ووٹ کرنے سے ہندو ووٹ متحد ہوجائے گا اور بی جے پی جیت جائے گی۔ اس کے باوجود ہندو ووٹ متحد ہوگیا اور بی جے پی جیت گئی۔مسلم لیڈر شپ اور مسلم دانشور مسلم قیادت والی پارٹیوں سے محض اس لیے کنارہ کشی کرتے رہے کہ ان پر فرقہ پرستی کا لیبل لگ جائے گا۔فرقہ پرستی اور قوم پرستی کا خوف آج تک ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے ۔اگر اپنی قوم کے مسائل اٹھانا فرقہ پرستی ہے تو پھر دلتوں کی بات کرنے پر مایا وتی،جاٹوں کی بات کرنے پر جینت چودھری،یادووں کی بات کرنے پر اکھیلیش سنگھ کو بھی فرقہ پرست کہا جانا چاہیے۔ہمیں خوف،ڈر اور دہشت کے خول سے باہر آنا چاہیے ،اور ہم جہاں بھی ہوں اور جس پارٹی میں بھی ہوں ہمیں بے خوف ہوکر اپنے قومی ایشوز کو اٹھانا چاہئے ۔
قوم کے ایشوز آخر کون فریم کرے گا ،انھیں جمہوری اداروں میں کون اٹھا ئے گا ؟میری رائے ہے کہ اپنی پارٹی،اپنی قیادت،اپنا جھنڈا ہوگا تو ہم اپنی بات جمہوریت کے ہر پلیٹ فارم پر کہہ سکتے ہیں۔ہماری سسکیوں ،آہوں اور کراہوں کی آواز ہر جگہ سنائی دے سکتی ہے۔سیکولر پارٹیوں کی 75 سالہ کارکردگی کو دیکھنے کے بعد بھی کیا ہمارے ذہنوں میں یہ فتور ہے کہ ہمارے مسائل سیکولر پارٹیاں حل کرسکتی ہیں۔کیا روزانہ ماب لنچنگ ،بے گناہوں کی گرفتاریاں ہمیں بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ہم روزانہ مارے جارہے ہیں مگر سیکولر مسیحا ئوںنے اس کو روکنے کے لیے کیا کیا؟کیاا ب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اپنی قیادت کو مضبوط کریں۔آخر کب تک ہم دوسروں کی جوتیاں سیدھی کرتے رہیں گے۔کب تک ہم اپنوں پر شک کرتے رہیں گے؟اور انھیں بی جے پی کا ایجینٹ بتاتے رہیں گے۔اترپردیش میں اگر سو سیٹوں پر مجلس کے لڑنے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا تو کیجریوال کے چارسو تین سیٹوں پر الیکشن لڑنے سے کس کو فائدہ ہوگا۔کبھی ہم نے عصبیت کا چشمہ ہٹا کر دیکھا کہ بی جے پی کی بی ٹیم کون ہے ۔کن پارٹیوں نے کانگریس کو ٹھکانے لگا کر بی جے پی کو راستا دیا۔کیا بی ایس پی جس نے بی جے پی کے ساتھ حکومتیں بنائیں اور اِس وقت بھی اس نے بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی کا عندیہ دیا ہے بی جے پی کی ایجینٹ نہیں ہوسکتی؟ ملائم سنگھ جس کو ہم نے ملا کا خطاب دیا اس نے جوہر یونیورسٹی رام پور کو بچانے میں کیا کردار نبھایا؟ اعظم خان اور ان کی فیملی جیل میں سڑنے ،گلنے کے لیے چھوڑ دی گئی اور ملائم سنگھ کا سارا خاندان اقتدار کے عیش لیتا رہا۔آخر اترپردیش میں اٹاوہ مین پوری میں ہی بی جے پی کیوں شکست کھارہی ہے اس پر ہم نے کبھی غور کیا؟ لیکن ہمیں تو اپنوں میں کیڑے نکالنے کی ایسی عادت پڑگئی ہے کہ دوشمن اور دوست میں تمیز کرنا بھول گئے ہیں۔میں آپ کے سامنے مجلس کی وکالت نہیں کررہا ہوں بلکہ میرا مدعا یہ ہے کہ آپ اپنی طاقت بنیں ،آپ جس مسلم پارٹی پر یقین کرتے ہوں؟جس لیڈر سے محبت کرتے ہوں اس کو مضبوط کریں ۔
آنے والے سال میں کئی ریاستوں میں چنائو ہونے والے ہیں ان میں اترپردیش بھی شامل ہے۔میری رائے ہے کہ ان ریاستوں کے وہ اسمبلی حلقے جہاں مسلمان ووٹ فیصلہ کن ہے یا مؤثر ہے ان اسمبلی حلقوں میں اپنی قیادت والی پارٹی کا تجربہ کیا جانا چاہیے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان اسمبلی حلقوں میں مسلم ایشوز پر کھل کر بات بھی ہوگی اور کام بھی ہوگا۔یہ ارکان اسمبلی سیکولر پارٹی کی حکومت سازی میں معاون بھی ہوں گے۔مثال کے طور پرتلنگانہ میں مجلس کی سات سیٹیں ہیں ،یہ سات ممبران اسمبلی چونکہ اپنی قیادت سے نسبت رکھتے ہیں اس لیے مسلم ایشوز پر کھل کر بولتے ہیں ،سرکار پر بھی دبائو بناتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ مجلس کی وجہ سے وہاں کی سرکار مسلمانوں کی فلاح کے لیے کام کرنے پر مجبور ہے۔وہیں اترپردیش میں سماج وادی دور حکومت میں 66ایم ایل اے ہونے کے باوجود مظفر نگر کا حادثہ ہوا اس وقت بھی 25 مسلم ایم ایل اے ہونے کے باوجود کوئی کام کرنا تو دور ان کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ اگر ہم یہ طے کرلیں کہ اپنی اکثریت والی سیٹوں پر اپنی قیادت کو ووٹ کریں گے اور ایسی سیٹوں پر جہاں ہم کسی کو فاتح بنا سکتے ہیںوہاں اپنا ووٹ ایسے نمائندوں کو دیں گے جو فرقہ پرستوں کو شکست دے سکتا ہوتو ہم ایک ایسی سرکار کے وجود کی امید کرسکتے ہیں جو ہم پر منحصر ہواور ہمارے ایشوز حل کرنے کے لیے مجبور ہو۔
میری رائے ہے کہ اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد کرنے کا یہ بالکل صحیح وقت ہے۔ایک ایسی سیاسی قیادت جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ملک کے انصاف پسند ہندو،دلت ،پسماندہ اور مظلوم کی آواز ہو،اس قیادت کا ایجنڈا ملک میں آئین کی پاسداری،عدل و انصاف کی بحالی،امن و قانون کی علم برداری ہو۔مجھے یہ بات تسلیم ہے کہ سارے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکتے ،مگر اکثریت تو آسکتی ہے۔اپنی قیادت سے میری مراد یہ بھی نہیں ہے کہ وہ ہندئوں کی مخالف ہوگی بلکہ اس میں انصاف پسند سیکولر ہندو بھائیوں کو عزت دی جائے گی۔دراصل موجودہ اقتدارملک ،قوم اور انسانیت کے لیے تباہ کن ہے،اور موجودہ حزب اختلاف کی بے وفائیوں کے سبب اس پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔میری مخلصانہ اپیل ہے سیاسی و سماجی رہنمائوں سے اوردینی و رفاہی تنظیموں کے ذمہ داران سے کہ اس نازک وقت میں اپنے اختلافات بھول کر متحد ہوجائیں،اپنوں پر اعتبار کریں،آج ہم اپنے ذاتی مفادات یا انا کی خاطر آپس میں لڑتے رہیں گے تو کل ہمارا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے