تحریر : مسعود جاوید
وژن ، مشن، اسٹریٹجی اور ایکشن میں تطابق اور تنسیق کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے ۔ عمارت ایک منزلہ ہو یا کثیر منزلہ ، عالیشان ہو یا سادہ ایک رات میں تعمیر نہیں ہوتی ہے۔ بنیاد سے لے کر چھت تک اینٹ اینٹ جوڑ کر بنتی ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی کانفرنس میں اتنے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں کہ ہر پر عمل کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔
کانفرنس سے لوٹنے والے ارکان عاملہ کو کیا کیا ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور عملدرآمد کے لئے کتنا وقت دیا گیا ہے۔ احتساب اور جائزہ لینے کے لئے کون سا میکانزم ہے۔ کیا حاضرین کانفرنس کا مرکزی، صوبائی اور ضلعی دفاتر سے ہاٹ لائن رابطہ کی شکل ہے۔ عموماً ہمارے یہاں اہداف اور دائرہ عمل کی تقسیم ، ترجیحات اور ٹائم فریم ورک طے نہیں کیا جاتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جب نیٹ کے ساتھ کمپیوٹر ، موبائل اور سوشل نیٹ ورکنگ کی سہولیات ہر ایک کو میسر ہے کتنی عجیب بات ہے کہ ہفتہ واری پندرہ روزہ اور ماہانہ رپورٹ، فیڈ بیک، کارکردگی اور مراکز سے ہدایات کا دو طرفہ منظم طریقہ کار مفقود یا برائے نام ہو۔
کانفرنسوں میں بعض باتیں سواد اعظم کے لئے کی جاتی ہیں اور بعض باتیں مخالفین کو خبردار کرنے کے لئے۔ مخالف کا مرعوب ہونا یا کم از کم سنجیدگی سے نوٹس لینا کہنے والے کی افرادی قوت اور قوت ارادی پر موقوف ہوتا ہے ۔ اسی طرح بعض باتیں خموشی اور یکسوئی سے کام کرنے کے تعلق سے ہوتی ہیں ۔
ضروری نہیں ہر کام ملی تنظیمیں ہی کریں۔ بیدار معاشرہ کے نوجوان بھی بہت سارے سماجی کام کرتے ہیں۔ مقامی سطح پر این جی او کی چھتری کے نیچے یا بغیر این جی او کے بھی بہت سارے کام کئے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
1- مثالی محلہ، ماڈل کالونی اور آئیڈیل لین بنانے کے لئے ہمیں صرف بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ رضا کاروں کو معمولی عوامی چندہ اور میونسپل کارپوریشن سے رابطہ کر کے صاف ستھری گلیاں، سڑکیں اور نالیاں مینٹین کی جا سکتی ہیں۔
2- ڈراپ آؤٹ بچے اور بچیوں اسی طرح خراب معاشی حالت سے مجبور کام کرنے والے بچوں کی تعلیم کے لئے غیر منظم ون ٹیچر اسکول کسی بھی جگہ کسی بھی وقت صبح دوپہر یا شام شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ان بچوں کو تعلیم کی طرف راغب اور اتنا اہل بنایا جا سکتا ہے کہ بعد کے سالوں میں ریگولر اسکول میں داخلہ لے سکیں ۔
3- ہر شخص ہر کام نہیں کر سکتا۔ کوئی فکر لے کر اٹھے، کوئی اپنا قیمتی وقت دے، کوئی اپنے گھر فلیٹ کا ایک کمرہ؍ہال دے اور کوئی ایک ٹیچر اور کتاب و قلم اور اسٹیشنری کا خرچ اٹھائے۔
ہر کالونی میں رضاکار مسلم پروفیشنل کی ایک تنظیم ہو جو ضرورت مندوں کو پیشہ ورانہ خدمات مفت یا معمولی چارج کے عوض پیش کریں۔ ان تنظیموں کے ذمہ داروں کے نام، پتے اور موبائل نمبر سے علاقہ کے لوگوں کو مطلع کیا جائے تاکہ پریشانی کے عالم میں لوگ ان پروفیشنل سے بلا جھجک رابطہ کر سکیں۔
پورے ملک میں بیک وقت تبدیلی لانے کی باتیں محض نعرہ بازی ہوتی ہیں۔ ایک ایک اینٹ جوڑ کر تعمیر کرنے کی سوچیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)