قاسم سید
دانشوروں کی بستی اوکھلا کے چھوٹے مگر خوبصورت ہوٹل ریور ویو میں انتشار ملت کے سمندر سے اتحاد ملت کے موتی تلاش کرنے اور ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کے طور پر 8اگست کو مشاہرین ملت کا’یک روزہ بند کمرے کا اجلاس‘ ہورہا ہے ،جو دن بھر چلے گا۔ اس کے داعیوں میں16مقتدر شخصیات کا نام ہے ،اس میں بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی، دونوں جمعیۃ کے صدور مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی،امیر جماعت اسلامی انجینئرسعادت اللہ حسینی،مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم،صدرمشاورت نوید حامد، شیعہ عالم مولانا کلب جواد، صدر ملی کونسل مولانا عبداللہ مغیثی، صدر علماء و مشائخ بورڈ مولانا اشرف کچھو چھوی وغیرہ شامل ہیں، مگر اس کے اصل روح رواں سکریٹری جنرل ملی کونسل ڈاکٹر منظور عالم ہیں ۔یہ کانفرنس کووڈ کی وجہ ملتوی ہوتی رہی اور اب بھی کووڈ کے اندیشوں کے سایہ میں ہورہی ہے۔پہلے یہ دودن کی ہونا تھی اب ایک دن میں ہی سمیٹ دیاگیا ہے۔
اس کی تیاری گزشتہ ایک سال سے ہورہی تھی مگر اتحاد ملت سدابہار موضوع ہے، پت جھڑ ہو کہ ساون اس موضوع پر کبھی خزاں نہیں آتی،یہ سب سے پیچیدہ ہونے کے باوجود عام فہم اور پسندیدہ موضوع رہا ہے ،اتحاد ملت کے خواہاں ہوں یا انتشار ملت کے ذمہ دار سب کے نزدیک اس کی چنداں اہمیت ہے۔یہ کانفرنس اس لحاظ سے اہم ہے کہ عرصہ دراز کے بعد عمائدین ملت سر۔ جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں بھلے ہی کوئی نتیجہ برآمد ہو یا نہیں۔ ویسے بھی چند گھنٹوں میں اتحاد ملت کا فارمولہ مل جانے کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے یہ کہنا خوش فہمی ہوگی کہ پورے ملک خصوصاً مسلمانوں کی نگاہیں اس پر ٹکی ہیں، کیونکہ اس کی نہ تو تشہیر کی گئی ہے اور نہ عام کیا گیا ہے۔
بہر حال محلہ محلہ ،شہر شہر،قریہ قریہ مختلف فرقوں،ذاتوں برادریوں،مسلکوں،مذہبی تفرقوں،سیاسی وابستگیوںاور طرح طرح کے دھڑوں میں منقسم یا بانٹ دی گی مگر امت واحدہ کے رومانوی تصور سے بندھے مسلمانان ہند کے دینی رہبروں کا جمع ہونا وہ بھی خوف دہشت اور نادیدہ و دیدہ بندشوں ور دباؤ کے ماحول میں ایک چھت کے نیچے بیٹھنا قدرے غنیمت ہے۔
اس میں اہم اداروں و جماعتوں کی سرکردہ شخصیات کو ہی بلایا گیا ہے،جبکہ سیاسی مسلم لیڈروں ،دانشوروںاور آبادی کے نصف حصہ خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے،ہمارے یہاں ویسے بھی خواتین کو امور خانہ تک محدود کردیا گیا ہے جب ضرورت ہوتی ہے تو سڑکوں پر اتار دیا جاتاہے ،اب جبکہ دنیا بھر میں خواتین کو ایمپاور کرنے اور جنسی مساوات کی تحریک چل رہی ہے ہمارے ارباب ضرور اس سمت میں سوچیں گے ،اسلام اس کی نفی نہیں کرتا،ملی وسیاسی فیصلوں میں خواتین کی مطلوبہ شرکت ہونی چاہیے۔یہ پہلو بہت کمزور رہا ہے۔
دعوت نامہ میں کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ بتایا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات اور نوجوانوں میں پھیلی مایوسی کو دور کرنے کی ضرورت ہے ،ان تک یہ پیغام پہنچا نا ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے قائدین بے فکر نہیں بیٹھے ہیں،وہ آپس میں اتحاد کے ذریعہ کوئی مشترکہ پروگرام بنانے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں،اس سے مایوسی کی فضا ختم کرنے میں مدد ملے گی اور کچھ ’’بڑے مقاصد‘‘کے حصول کی طرف قدم بڑھاے جائیں گے ۔
دراصل سی اے اے مخالف تحریک کے دوران بزرگ قیادت کے حد درجہ محتاط رویہ اور تحریک میں شامل متحرک نوجوانوں کی گرفتاری پر سردمہری کے سبب مسلم نوجوان طبقہ میں قیادت سے ناراضگی اور دوری پیدا ہوگئی جس کو بظاہر دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی فاصلہ لگاتار بڑھتا گیا ۔ وقت آگیا ہے کہ اس فاصلہ کو ختم نہیں ،تو کم کیا جائے اور کوئی لائحہ عمل دیا جائے۔
مجموعی طور پر یہ اجلاس غیر معمولی ہے ۔ اس سے قبل مشاورت نے بھی ایک میٹنگ کی تھی ،لمبے تعطل کے بعد قائدین پھر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہورہے ہیں ،مختصر وقت میں کسی ٹھوس اور مضبوط قدم کی خوش فہمی نہیں پالنی چاہیے۔ اجلاس میں الا ماشاء اللہ علماء و مذہبی طبقے کو مدعو کرنا بتاتا ہے کہ منتظمین کوپتہ ہے کہ جہاں سے اختلاف کے سورج کی کرنیں پھوٹتی ہیں وہیں سے اتحاد کے چاند کو روشنی ملتی ہے۔یعنی اتحاد ملت کاتمام دارومدار اور زمام علماء و مشائخ و کبار کے ہاتھ میں ہیں۔حال ہی میں امارت شرعیہ کی امارت کے لیے جنگ وجدال کاپہلا راؤنڈ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوا ہے ۔یہ چیلنج ہے کہ اتحاد ملت کے پل صراط سے گزرنا کتنا مشکل ہےویسے اتحاد ملت کا فارمولہ راکٹ سائنس نہیں۔
اتحاد تو ایک مفروضہ ہے کون ہے جو اپنا مسلکی عقیدہ، جماعتی وابستگی اور سیاسی وفاداری کو چھوڑنے پر تیار ہو اس لیے غیر ضروری مشق کے بجائے ہمارے قائدین با تمکین اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کم از کم مشترکہ پروگرام پر مفاہمت کرلیں اور مایوسی دور کرنے کے لیے اکٹھے ہونے اور رہنے کا تاثر پیش کرنے میں کامیاب ہوں تو یہ مایوسی میں روشنی کی کرن ثابت ہوگی۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس اجتماع کو خیروبرکت کاباعث بنائےاور جیسا کہ دعوت نامہ میں کہا گیا ہے کچھ بڑے قدم اٹھاے جائیں۔ان بڑے قدموں اور کم از کم مشترکہ پروگرام کا انتظا رہے گا۔