مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ
ملک کی17 ملی تنظیموں کی شراکت سے اجتماعی قیادت ابھارنے، مسلکی منافرت دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے اتحاد ملت کانفرنس کا انعقاد دہلی کے ہوٹل ریور ویومیں 8/ اگست 2021 کو کیاگیا، کانفرنس کے کنوینر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کار گزار جنرل سکریٹری حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم مشترکہ طور پر تھے، شرکت کی دعوت مجھے بھی آئی تھی، اپنی مصروفیات کی وجہ سے دوسرے سیشن میں آن لائن شریک ہو کر تقریر وتجویز سے مستفیض ہو سکا، نظام الاوقات میں امارت شرعیہ کے نمائندہ کو خیالات کے اظہا کا کوئی وقت نہیں دیا گیا تھا، اس لیے بات سماعت سے آگے نہیں بڑھ سکی، حالاں کہ پورے ہندوستان میں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد امت کا نعرہ سب سے پہلے آج سے ایک سو سال قبل امارت شرعیہ نے ہی لگا یا تھااور آج بھی وہ اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہے اور اس کی جد وجہد سے ان ریاستوں میں جو اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں، خاصی کمی آئی ہے، اور اتحاد کی فضا بنی ہے۔
اس کانفرنس میں اجتماعی قیادت کے ساتھ آپسی روابط اور تعاون پر خاصہ زور دیا گیا،اور اختتام پر نو(9) نکاتی فارمولہ اور چھ نکاتی قرار داد پر ملی قائدین نے اتفاق کیا، اللہ کرے اس سے اتحاد ملت کی نئی راہیں کھلیں، اس کے قبل ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے بھی ایک میٹنگ بلائی تھی، جس میں ذرائع ابلاغ کو میٹنگ سے دور رکھا گیا تھا، دو چار روز اس کا چرچا رہا، لیکن پھر ایسی خاموشی چھائی، جسے ”صدائے برنہ خواست“ سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ماضی میں مسلم مجلس مشاورت آل انڈیا ملی کونسل وغیرہ کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہواتھا، اس کے کس قدر اثرات سامنے آئے اس سے ہر پڑھا لکھا طبقہ واقف ہے، حالیہ کانفرنس کے قبل اجتماعی قیادت کے عنوان سے بعض مضامین بھی پڑھنے کو ملے،جس میں اجتماعی قیادت کا مفہوم ہی واضح نہیں تھا، نظام الاوقات میں ایک مجلس کے چار پانچ صدر کے ناموں کے اندراج سے لگا کہ شاید اجتماعی قیادت کا یہی مفہوم ہے، ایسا پہلی بار ہی دیکھنے میں آیا کہ ایک ہی مجلس کے کئی لوگ مشترکہ صدر ہوں، دیکھنے اور لکھنے میں یہ بات جس قدر بھی بھلی لگے، لیکن عملی نہیں ہے، ہمیں اتحاد امت کے لیے عملی تگ ودو کی زیادہ ضرورت ہے، تجاویز اور قرار داد پاس کرنے اور سمینار سمپوزیم قائم کرنے کی روایت قدیم ہو چکی ہے، اس سے بیداری کا کام لیا جاتا رہا ہے،آج بھی لیا جا سکتا ہے، ضرورت اس سے آگے کے لیے پیش بندی پامردی اور فروعی اختلافات کو دور کرنے کی ہے، اور یہی اس وقت کرنے کا بڑاکام ہے۔
اجلاس کے دوسرے دن اِسی عنوان سے اُسی مقام پر ایک دوسری اتحاد ملت کانفرنس ہوئی،بعض تنظیموں کے ذمہ داروں نے اس میں بھی شرکت کی، اس دوسری کانفرنس کو پہلی کانفرنس کا رد عمل نہیں سمجھنا چاہیے، کیوں کہ کانفرنس کی تیاری ایک دن میں نہیں ہوتی، مہینوں کی محنت کے بعد انعقاد ممکن ہوتا ہے۔ اس کے لیے ملی قائدین پر خاصی محنت کرنی پڑتی ہے، تنظیمی اور جماعتی اتحاد سے اوپر اٹھ کر کسی مجلس میں شریک ہونا آسان نہیں ہے، دونوں کانفرنس، اس کی قرار داد اور فارمولہ کی ہم حمایت کرتے ہیں، اتحاد کی دعوت کسی کی طرف سے بھی آئے، امارت شرعیہ کا ہر دور میں موقف یہی رہا ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہیں، کیوں کہ فروعی مسائل کو عمل کے لیے محدود کرنے اور اجتماعی مسائل میں متحد ہو کر کام کرنا ہمارا شعار رہا ہے، گودوسری تنظیموں کے یہاں یہ رواداری پہلے بھی مفقود تھی، اور آج بھی محدود ہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ اختلاف کی سر حدوں کو پہچاننا چاہیے اور فروعی مسائل کو اجتماعی مفاد کے لیے بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ ہم لوگوں کے کام کا طریقہ یہی ہے اور ہم نے اس سے سر مو انحراف کبھی نہیں کیا ہے۔
ان دونوں کانفرنس کے سلسلہ میں ہمارے نوجوان دوستوں کی طرف سے بہت سارے بیانات آئے جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر نشر ہوئے۔ کئی تحریروں میں حالات کی خطرناکی کے قرار واقعی احساس کے باوجود عصر حاضر میں کام کے طریقوں سے نو جوان مایوس بھی تھے اور نالاں بھی، حالاں کہ اسلام قنوطیت کے بجائے رجائیت کا قال ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ لاتقنطوا من رحمۃ اللہ اللہ کی رحمت سے نامید مت ہو اور یہ کہ لا تیئسوا من روح اللہ الا القوم الکٰفرون اللہ کی رحمت سے کافر ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے جوانوں کو قائدین ملت پر اعتماد رکھنا چاہیے، نوجوان اگر ان تجربہ کار قائدین کا ساتھ دیں گے تو بات بنے گی، علم، حوصلہ، جذبہ کے ساتھ تجربہ نہ ہو تو کبھی کبھی بات بگڑ جاتی ہے، نوجوانوں کا جوش وجذبہ، تجربہ کار قائدین کے مشوروں کی روشنی میں آگے بڑھے تو ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی سر بلندی کے راستے کھلیں گے اور کام آگے بڑھے گا۔
اس سے انکار نہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے اور شاید ہندوستان کی تاریخ کا سب سے مشکل مرحلہ آج مسلمانوں کے سامنے ہے، لیکن قوت ارادی اور جوش کے ساتھ ہوش بھی بر قرار رہے تو اس مرحلہ کو آسان کیا جا سکتا ہے۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ایسی کانفرنس دسیوں پہلے ہو چکی ہیں، ملت کو اس کا کیا فائدہ پہنچا، بات پورے طور پر نہیں جزوی طور پر صحیح بھی ہے، لیکن تھک ہار کر بیٹھ جانے کے بجائے ایک اور تجربہ کرنا بُرا نہیں ہے، شاید ملک کے جو حالات اس وقت ہیں اس کی وجہ سے ہمارے قائدین کچھ کر گزریں، کیوں کہ خارجی حالات بھی اسی کے متقاضی ہیں کہ متحد ہو کر کاموں کو آگے بڑھایا جائے
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)