کھنؤ27/ ستمبر
گذشتہ دنوں لکھنؤ کی خصوصی سیشن عدالت نے مبینہ جبراً مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی سمیت 16/ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا۔ نچلی عدالت نے 12/ ملزمین کو عمر قید اور 4/ ملزمین کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ نچلی عدالت فیصلے کو ملزم عرفان شیخ نے لکھنؤ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف داخل اپیل پر گذشتہ کل لکھنؤ ہائی کورٹ کی دور کنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عرفان خان کے دفاع میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سینئر ایڈوکیٹ اوپی تیواری اور ایڈوکیٹ فرقان پٹھان پیش ہوئے۔خصوصی سیشن عدالت سے سزا پانے والے ملزمین میں سے عرفان شیخ پہلا ملزم ہے جس نے نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
دوران سماعت دو رکنی بینچ کے جسٹس عطاء الرحمن مسعودی اور جسٹس اجئے کمار سری واستو کو ایڈوکیٹ او پی تیواری نے بتایاکہ نچلی عدالت نے عرض گذار کو ناکافی ثبوت وشواہد موجود ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا سنائی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ایڈوکیٹ اوپی تیواری نے عدالت کو مزید بتایا کہ جن دفعات کے تحت نچلی عدالت نے عرض گذار اور دیگر ملزمین کو عمر قیدکی سزا سنائی ہے اس کااطلاق ہوتا ہی نہیں۔ایڈوکیٹ او پی تیواری نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس مقدمہ کی بنیاد ہی غیر آئینی ہے لہذا ملزمین کو سزا دینے والے نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کردینا چاہئے۔
ایڈوکیٹ او پی تیواری کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے استغاثہ کو نوٹس جاری کیا اور پانچ ہفتے کے اندر اپنا اعتراض داخل کرنے کا حکم دیا۔ریاستی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت سے عرض گذار کی اپیل پراعتراض داخل کرنے کے لیئے آٹھ ہفتوں کا وقت طلب کیا تھا جس پر ایڈوکیٹ اوپی تیواری نے اعتراض کرتے ہوئے عدالت کو بتایاکہ عرض گذار دوران ٹرائل ضمانت پر تھا لیکن نچلی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اسے جیل واپس جانا پڑا لہذا عرض گذار کی اپیل اور ضمانت کی عرضداشت پر جلد از جلد سماعت کی جائے۔دو رکنی بینچ نے استغاثہ کو نوٹس جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرائل کورٹ کاریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے اور مقدمہ کی سماعت نومبر کے ماہ میں کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
عرض گذار عرفان شیخ کی جانب سے لکھنؤہائی کورٹ میں داخل اپیل کو ایڈوکیٹ عارف علی اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے تیار کیاہے جس میں تحریر ہے کہ استغاثہ ملزم کے خلاف عدالت میں پختہ ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے جس کی بنیاد پر ملزم کو اس مقدمہ میں قصور وار ٹہرایا جاسکے۔ اس مقدمہ میں استغاثہ نے ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے لیئے 24 / سرکاری گواہوں کو پیش کیا جس میں چیف تفتیشی افسر کی گواہی بھی شامل ہے لیکن ان تمام گواہان کی گواہی قانوناً پختہ نہیں ہے اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنا دی جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
عرضداشت میں مزید تحریر ہے کہ ملزم عرفان اور دیگر ملزمین کے خلاف گواہی دینے والے گواہان کے بیانات میں کھلا تضاد ہے۔ گواہان نے عدالت میں پہلی مرتبہ ملزم عرفان کے دیگر ملزمین کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا تھا۔ملزم عرفان کی گرفتاری ہی مشکوک ہے کیونکہ ملزم عرفان کا نام ایف آئی آر میں درج ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ بعد میں اسے دیگر ملزمین کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا۔
عرضداشت میں مزید تحریر ہے کہ گواہ استغاثہ لکشمی گپتا اور ادتیہ گپتا نے 2020 میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلیجن قانون 2021 میں بنا تھا لہذا اس قانون کا اطلاق اس مقدمہ پر ہوتا ہی نہیں نیز اس قانون کے مطابق متاثر یا اس کے رشتہ دار ایف آئی آر درج کراسکتے ہیں لیکن موجودہ مقدمہ میں ونود کمار (اے ٹی ایس افسر) نے شکایت درج کرائی ہے جس کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا جو غیر قانونی ہے اس کے باوجود نچلی عدالت نے ملزمین کو قصور وار ٹہرایا ہے۔