حیدرآباد۔۲۴؍ نومبر: پرانے دور میں لوگ اپنے عزیزوں کو خطوط کے ذریعے پیغامات بھیجتے تھے اور اسے صحیح مقام تک پہنچانے کا کام ڈاکیہ کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ آج دنیا چاہے کتنی ہی بدل گئی ہو، اب خطوط کی جگہ ایس ایم ایس نے لے لی ہے، واٹس ایپ، فیس بک کے علاوہ دیگر کئی سوشل سائٹس پر لوگ گھنٹوں گپ شپ کرتے رہتے ہیں لیکن ڈاکیا پھر بھی بہت اہم ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں لاکھوں پوسٹ مین ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں، لیکن کوئی مسلمان عورت ڈاکیہ نہیں تھی۔ حیدرآباد (آندھرا پردیش) کی جمیلہ پہلی بار ملک کی پہلی مسلمان خاتون ڈاکیا بن گئی ہیں۔مسلمان ہونے کی وجہ سے حیدرآباد کے محبوب آباد ضلع کے گرلا منڈل کی لیڈی پوسٹ مین جمیلہ کی تقرری بھی خوشی کی بات ہے۔ اگر آج ان کے شوہر خواجہ میاں اس دنیا میں ہوتے تو انہیں گھر گھر خطوط بانٹنے کی کیا ضرورت تھی لیکن چند سال قبل ان کے شوہر اپنے بچوں اور عزیزوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود جمیلہ نے ہمت نہیں ہاری۔ یوں وہ گھر کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ اتفاق سے اب انہیں اپنے شوہر کی جگہ پوسٹ مین کی نوکری مل گئی ہے۔ وہ ملک کی پہلی مسلم خاتون ڈاکیا بن گئی ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں گھر گھر ڈاک کی اشیاء پہنچاتی ہیں۔یہ خوشی کی بات ہے کہ اس لیڈی پوسٹ مین کی بڑی بیٹی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے والی ہے اور چھوٹی بیٹی بھی ڈپلومہ کر رہی ہے۔ خواجہ میاں کی وفات کے وقت جمیلہ کی بڑی بیٹی پانچویں جماعت میں اور چھوٹی تیسری جماعت میں تھی۔دوسری خواتین پوسٹ مینوں کی طرح جنہیں ڈاک کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں بھی اس صورتحال سے نمٹنا پڑتا ہے۔ شروع میں ڈاک کی ترسیل کا کام اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ وہ سائیکل چلانا بھی نہیں جانتی تھی۔ایسے میں گرمی، بارش یا سردی میں طویل مسافت طے کر کے گھر گھر خط پہنچانا ان کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب انہوں نے سائیکل چلانا سیکھ لیا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ انہیں اپنی ملازمت سے صرف 6000 روپے ملتے ہیں، جس سے خاندان کو چلانا ایک مشکل کام ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے معاش کا دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے۔