نئی دہلی:اتوار کو دہلی کے جنتر منتر پر ہندو سینا اور کچھ دوسرے گروپوں کی طرف سے منعقد کی گئی ایک ‘مہاپنچائیت’ کو پولیس نے اس وقت روک دیا جب کچھ مقررین بشمول یتی نرسمہانند نے مبینہ طور پر "اشتعال انگیز تقریریں” کیں۔ مہا پنچایت ہریانہ کے نوح میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں منعقد کی جا رہی تھی۔پی ٹی آئی کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے منتظمین سے کہا کہ وہ کسی خاص مذہب اور کمیونٹی کے بارے میں کچھ نہ کہیں، اس کے باوجود انہوں نے اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ جس کے بعد انہیں یہ پروگرام روکنے کی ہدایت کی گئی۔
منتظمین کے مطابق، غازی آباد کے داسنا دیوی مندر کے متنازعہ ہیڈ پجاری یتی نرسمہانند، مقررین میں شامل تھے جنہیں پولیس نے "زبانی اجازت” دی تھی۔ تاہم پولیس نے پروگرام کے انعقاد کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
آل انڈیا سناتن فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیموں کے زیر اہتمام ایک ‘مہاپنچایت’ سے خطاب کرتے ہوئے، یتی نرسمہانند نے کہا، "اگر ہندوؤں کی آبادی کم ہوتی ہے اور مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی ہے، تو ہزاروں سال کی تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔” پھر جو کچھ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ ہوا وہی یہاں دہرایا جائے گا۔ جب وہ یہ سب بول رہے تھے تو پولیس نے تقریر روکنے کو کہا۔ پولیس نے کہا کہ وہ سٹیج پر نفرت انگیز تقریر نہیں کر سکتے۔ پولیس نے عدالت کی ہدایت کا حوالہ بھی دیا۔
پولیس نے نرسمہانند کو روکا تو ہندو سینا کے وشنو گپتا اسٹیج پر آئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نوح اور میوات "جہادیوں اور دہشت گردوں کے قلعے” میں تبدیل ہو چکے ہیں اور مطالبہ کیا کہ وہاں ہندوستانی فوج اور سی آر پی ایف کےکیمپ قائم کیے جائیں۔ گپتا نے کہا کہ ملک 1947 میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا تھا۔ جب تک یہاں ایک بھی مسلمان رہے گا، تقسیم مکمل نہیں ہوگی۔ جب گپتا بول رہے تھے، پولیس افسر نے پھر مداخلت کی اور منتظمین کو جگہ چھوڑنے کو کہا۔ پولیس نے کہا کہ اب وہ پروگرام نہیں ہونے دیں گے۔ یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
وہاں کے پولس افسروں نے کہا- ”آپ کو، منتظمین سے کہا گیا تھا کہ وہ کسی خاص مذہب کے بارے میں کچھ نہ کہیں۔ اس کے باوجود آپ اس کی پیروی نہیں کر رہے، اس لیے یہ ‘مہاپنچایت’ یہاں ختم کی جا رہی ہے۔