شیر علی انجم
صحافت دراصل ایک انکشاف کا نام ہے۔ معاشرے کو ظلمت اورتاریکی سے نکال کر نور اور روشنی میں لانے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔صحافت ایک اعلیٰ بلند بالا انقلابی مقصد کی تیاری کا نام بھی ہے اور قوموں کی فطری اور نظریاتی تبدیلی کا عمدہ وسیلہ بھی ہے۔
صحافت ذہن سازی کا قابل قدر طریقہ اور ملک و ملت کو مستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کا نام بھی ہے۔صحافت کے حوالے سے اگر بات کریں تو جس طرح زندگی کے تمام معاملات میںبگاڑ پیدا ہوتا گیا بالکل اسی طرح اس شعبے میں بھی بہتر پرورش کے بجائے بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ صحافت حقیقی معنوں سے بے نیاز اور ضابطہ اخلاق کی پابندی سے دور نظر آتا ہے ۔صحافت اب ایک مقدس مشن نہیں بلکہ ایک کمرشل پیشہ بن گیا ہے۔یہ مقدس پیشہ ملت کی خدمت کے بجائے مال ودولت کے حصول کا ذریعہ بن کرحق اور باطل کے درمیان فرق واضح کرنے کے بجائے منافقانہ رویے کے ذریعے معاشرتی انتشار کا باعث بن رہا ہے۔
یہ باتیں ایک حقیقت پر مبنی چند مشاہدات ہے، لہٰذا کوئی یہ نہ سوچے کہ کسی خاص شخص یا ادارے کی دل آزاری کرنا مقصودہو۔بلکہ صحافت کے حوالے سے کچھ اجتماعی مسائل پر اور خطے کی معاشرتی ضرورت کے مطابق اس شعبے کو سمجھنے اورنافذ کرنے کیلئے آواز بلند کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے۔ ہم اپنے روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے پڑھتے اور سُنتے ہیں کہ خطے کی ضروریات کیا ہیں ا ور مجبوریاں کیا اور ان اسباب کے پیچھے کون سی کوتاہی کارفرما ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن بدقسمتی سے خطے کی صحافت میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ کچھ اخبارات اور اہل قلم میں وفاقی آمیزش نظر آتی ہے۔ تنقیدی خبریں اور مقالات صرف مخالف فریق کو زیر کرنے کے حوالے سے ہوتے ہیں جو کہ صحافتی اصول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کچھ قلم کار حضرات بھی بدقسمتی سے دوسرے تمام سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کی طرح فرقے اور ذاتی مفاد کیلئے کام کرتے ہیں جس کا ادراک ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ عمل خطے کی مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ آج اس خطے میں ایک درجن سے زیادہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اس کے علاوہ کئی آن لائن بلاک اور اخبارات بھی ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے صحافت کی ترجمان بننے کی کوشش میں مگن ہیں۔ مگر گنتی کے لوگ ہیں جو نظام کی خرابی پر لکھتے ہیں اور گنتی کے اخبارات ہیں جو اس طرح کے اہم قومی ایشو پر لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں ۔
اس حوالے سے جب مختلف اہل قلم سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ہندوستان کے بنیادی مسائل اور یہاں کی حکومت کے خلاف کالم لکھنے کا مطلب اپنے لئے اخبارات کا دروازہ بند کردینا ہے۔ کیونکہ اس خطے کے بہت سے اخبارات ہماری اطلاع کے مطابق صرف اس وجہ سے تنقیدی کالمز شائع نہیں کرتے کہ کہیں اُنہیں اشتہارات کا ملنا بند نہ ہوجائے یعنی اشتہارات کے حصول کا کوئی بھی ضابطہ ابھی تک طے نہیں ہوا، حالانکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اشتہارات متوازن طریقے سے تمام اخبارت کو دیئے جائیں لیکن اس خطے میں جس طرح ہر کام انوکھاہے بالکل اسی طرح اخبارات کے اشتہارات کا حصول بھی کرم نوازی سے ہی ممکن ہوتاہے کیونکہ ابھی تک کوئی میڈیا پالیسی مرتب نہیں ہو پائی ہےجو اس عمل کو برابری کے بنیاد پر یقینی بنائے۔یہی سبب ہے کہ کوئی قلم کار اہم قومی ایشو پر قلم نہیں اُٹھاتا کیونکہ اس کے شائع ہونے میں بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ہم نے کچھ اہل قلم اور زندگی کے مختلف امور سے تعلق رکھنے والے چند دانشور حضرات سے تجزیہ لیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون سےایسے اخبارات ہیں جو بغیر کسی لالچ اور خوف کے حقیقی صحافتی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ گنتی کے اخبارات ہیں جو اہل قلم حضرات کو موقع فراہم کرتے ہیں لہٰذا اُن اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹر صاحبان کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو معاشی مسائل کے باوجود اپنی صحافتی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے قومی ضرورت کے حوالے سے لکھے جانے والے ہر کالم کو اپنے اخبارات کا حصہ بنا تے ہیں۔ کئی اخبارات میں خبریں بھی سفارش اور سرکاری ایما پر شائع ہوتی ہیں اور ایسے بھی اخبارات ہیں جو دعویٰ تو عوام کی ترجمانی کا کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں سرکار اور بیوروکریسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یوں اپنے گھر کے مسائل کو نظر انداز کر کے کوا کی چال کے مصداق اپنی چال بھول کر ریٹنگ میں ایسا گم ہوتے ہیں کہ کچھ اخبارات فلم انڈسٹری کی برہنہ تصویر اور بیہودہ خبر لگانے سے بھی نہیں کتراتے، لیکن ایک ایسے خطے کا جس کے نام پر آپ صحافتی کاروبار کررہے ہیں یہاں مسائل کی انبار ہیں۔ یہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی کمی ہے اور یہاں کی صحافت کو بہتر بنانے کیلئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ یہاں کے ہر مسائل کا ذمہ دار وفاق کو ٹھراکر ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ ہم اس دھرتی کے ساتھ کتنے مخلص ہیں اور ہم نے دھرتی کے مسائل کے حل کے حوالے سے کیا خدمات سرانجام دیں؟ہماری پرنٹ میڈیا نے اب تک وہ کو نسا کارنامہ انجام دیا جس سے دھرتی کے حقیقی مسائل کی ترجمانی ہو ؟ کیا ملک کے آئینی ایشو کو کسی بین الاقوامی فورم میں اُٹھانے کیلئے کوئی کوشش کی گئی؟ ہمارے سیاست دانوں نے کونسا کارنامہ انجام دیا سوائے الیکشن میں عوام کو لڑانے اور حصول کرسی تک جھوٹے وعدے کرنے کے؟کچھ لوگ صحافت کو ذریعہ معاش کی پہلی سیڑھی سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور دوسرے تربیت کا فقدان ہے۔سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ایک صحافی فرقے کا نمائندہ بھی ہوتا ہے اور صحافت کا بھی، حالانکہ کہتے ہیں کہ صحافی خبر اور حالات اور واقعات کے سچ اور حقیقت ثابت ہونے کے بعد ہی تشہیر کرتے ہیں، لیکن ہم نے گزشتہ ہفتوں میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ صحافی، کچھ میڈیا رپورٹر حضرات سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے میں بڑے مصروف عمل دکھے جو کہ قلم اور صحافتی شعبے سے وابستہ لوگوں کیلئے زیب نہیں دیتا ۔
qqq