تحریر:تولین سنگھ
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کی اجازت کے بغیر ‘بلڈوزر انصاف’ نہیں ہوگا۔ یہ سن کر میرا دل خوش ہوا، کیوں کہ جب سے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کسی کے گھر کو گرانے کے سنگین جرم کو انصاف کہا ہے، تب سے میں اس قسم کے انصاف کی بلند آواز سے مخالفت کر رہی ہوں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی تقلید کرتے ہوئے بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں انصاف کے نام پر بلڈوزر کا استعمال کیا گیا ہے۔ جب اس نام نہاد ‘انصاف’ کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تو کئی وزرائے اعلیٰ نے جھوٹ بولا اور کہا کہ بلڈوزر صرف غیر قانونی عمارتوں پر استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ جھوٹ اس وقت بے نقاب ہوا جب مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ پتھر پھینکنے والوں کے گھروں پر پتھر برسائے جائیں گے۔
یہ اچھی بات تھی کہ وزیر موصوف نے مان لیا کہ بلڈوزر انصاف جیسی چیز ہوتی ہے۔ لیکن تب تک پورا ملک جان چکا تھا کہ عدالتوں کی جگہ بلڈوزر لے رہے ہیں۔ کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ کے حامی انہیں فخر سے ‘بلڈوزر بابا’ کہنے لگے۔ انہوں نے اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا کہ فسادات کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں یا مذہبی جلوسوں پر پتھراؤ کرنے والوں کے گھروں پر بلڈوزر استعمال کیے جائیں گے۔ لیکن بلڈوزر والوں کا مزاج عجیب نکلا۔ اکثر وہ صرف مسلمانوں کے گھر گرانے آتے ہیں۔ ہندو مجرموں کو بچایا جاتا ہے۔ یہ ہاتھرس نہیں پہنچے، جہاں دلت لڑکی نے اپنی موت سے پہلے ٹھاکر لڑکوں کے نام لے کر کہا تھا کہ انہوں نے اس کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اس کے ہی دوپٹہ سے اس کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ نہ ہی بلڈوزر لکھیم پور کھیری تک پہنچے جہاں ایک ہندو وزیر کے بیٹے نے کسانوں کے جلوس پر گاڑیوں کے قافلے کو چلا کر چار افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
بلڈوزر گھنٹوں کے اندر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کسی مسلمان پر اتر پردیش حکومت کے خلاف احتجاج کرنے یا فساد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایک گھر کو منہدم ہوتے دیکھا تھا، جب ایک دائیں بازو کے سیاستدان کی بیٹی آخر تک گھر کے سامنے کھڑی رہی اور ویڈیو اپ لوڈ کی۔ مجھے یاد ہے کہ اس پرانے، خوبصورت گھر کو منہدم ہوتے دیکھ کر مجھے کتنا برا لگا تھا۔ لڑکی کے مسلمان باپ کو پولیس نے فسادات میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر جیل بھیج دیا۔ اس کی بیٹی نے بلڈوزر کی کارروائی کی پوری ویڈیو بنائی اور اپ لوڈ کی، شاید اس امید پر کہ کوئی اس کے آبائی گھر کو بچانے آئے گا۔ کوئی نہ آیا تو کچھ ہی دیر میں انصاف کے نام پر گھر کھنڈر بن گیا۔
سپریم کورٹ نے انتہائی اہم فیصلہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک بھی بلڈوزر بغیر کوئی جرم ثابت کیے کسی گھر کو گرا دیتا ہے تو یہ اقدام خلاف آئین تصور کیا جائے گا۔ ججز نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بلڈوزر نہ صرف گھروں کو گرا رہے ہیں بلکہ پورے ملک کے عدالتی نظام کو کچل رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی دلیل یہ تھی کہ ایک ‘جھوٹا بیانیہ’ پھیلایا جا رہا ہے کہ صرف ایک کمیونٹی کے مکانات گرائے جاتے ہیں، لیکن ان کے دلائل ناکام رہے۔
ججوں نے واضح کیا کہ ‘جرم ثابت ہونے کے بعد بھی کسی کا گھر نہیں گرایا جا سکتا جب تک کہ قانون کے مطابق ایسا نہ ہو۔ ایک باپ کا پاگل بیٹا ہو سکتا ہے جس نے جرم کیا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ باپ کا گھر گرا دیا جائے۔ یہ کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘ سچ پوچھیں تو جب سے بلڈوزر جسٹس کا دور شروع ہوا ہے، میں شدید مایوسی کا شکار ہوں، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ قانون کی حکمرانی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جہاں بلڈوزر عدالتوں کی جگہ لے لیتے ہیں اسے جنگل راج کہتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ‘بلڈوزر بابا’ کے حامیوں نے شروع سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلڈوزر کے بغیر مافیا قسم کے لوگوں کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے بارہا یوگی آدتیہ ناتھ کی تعریف کی ہے۔
میں نے جب بھی سوشل میڈیا پر بلڈوزر جسٹس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، ہندوتوا سوچ رکھنے والوں نے مجھے ‘ہندو مخالف’ کہا ہے، یہ بات بھول کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بلڈوزر جسٹس صرف مسلمانوں کے لیے ہے، ہندوؤں کے لیے نہیں۔ جو لوگ تھوڑے سمجھدار ہیں وہ کہتے ہیں کہ بلڈوزر اس لیے ضروری ہو گئے ہیں کہ بھارت میں انصاف کی ٹرین بیل گاڑی کی رفتار سے چلتی ہے۔ یہ درست ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں ہو سکتا کہ عدالتوں کو بلڈوزر سے بدل دیا جائے۔ اس کا حل بلڈوزر انصاف نہیں ہے۔(بشکریہ :جن ستہ)