پروفیسر اپوروانند
تصویروں کےاندرتصویریں ہوتی ہیں۔ دو دن سے دیکھ رہا ہوں کہ متعدد لوگ مشتعل ہیں کہ قومی پرچم کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے جھنڈے سے چھپا دیا گیا ہے۔ اس کوقومی پرچم کی توہین بتایا جا رہا ہے۔ لیکن جومشتعل ہیں کیا وہ یہ محسوس کر پا رہے ہیں کہ ان کے صدمے سے اکثر ہندوستان کے لوگ متاثر نہیں ہیں۔
شاید ہی لوگوں کو یہ منظر اتنا عجیب لگ رہا ہو کہ وہ مشتعل ہو اٹھیں۔ ایسا کیوں ہوا ہوگا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو یہ سوال کر رہے ہیں، ان میں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس تصویر میں قومی پرچم کا جو استعمال کیا گیا، وہی مناسب تھا یا نہیں یاقومی پرچم کا یہاں استعمال ہی اس کی توہین ہےیا نہیں۔جوہندوستانی آئین کے نام پر لیے گئےحلف کی خلاف ورزی کرتے وقت ذرا نہیں جھجکا اور جس نے بعد میں اس وعدہ خلافی کو فخریہ اپنی بہادری قراردیا،کیا اس کے جسد خاکی کو قومی پرچم کے لمس کےکا حق ہے؟ وہ اصل سوال تھا۔ لیکن وہی سوال پوچھا نہیں جا رہا ہے۔
آخر کس کویاد نہیں ہے کہ کلیان سنگھ نے عدالت سے کیے گئے وعدےکو توڑ دیا تھا کہ 6 دسمبر، 1992کو ایودھیا میں لاکھوں ‘کارسیوکوں’ کے اکٹھا ہونے کے باوجود بابری مسجد کی حفاظت کا پورا انتظام وہ کریں گے اور اس کی گارنٹی کریں گے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
انہوں نے اپنےآئینی وقار کو مجروح کر دیا اور ملک کےوسیع ترمفاد کے اوپرآر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی فائدے کو ترجیح دی اور اس کے لیے وزیر اعلیٰ کے اپنے آئینی عہدے کاغلط استعمال کیا۔ بابری مسجد کی حفاظت نہیں کی اور اسے مسمار کیے جانے کا پورا موقع ’کارسیوکوں‘کو دیا۔
عدالت سے انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ بابری مسجد کی زمین پر کوئی تعمیری کام نہیں ہوگا۔ اس کی خلاف ورزی بھی انہوں نے کی اور اس کے لیے انہیں عدالت نے سزا بھی دی۔ وہ علامتی سزا، ایک دن کی قید تھی۔ لیکن وہ سزایافتہ تو ہوئے ہی۔ اور یہ کوئی جدوجہد آزادی نہ تھی جس میں جیل جانافخرکی بات ہو۔ وہ وعدہ خلافی تھی ،یہ بات لوگ بھول جاتے ہیں۔
یہ بات الگ ہے کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد نہدام کے معاملے میں عدالت کی ہتک کے معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔ عدالت کی اس ہچکچاہٹ کا نتیجہ کئی سال بعد نظرآیا جب بابری مسجد کی زمین پر اس کے وجود کو قبول کرنے کے باوجود وہ زمین پھر عدالت کے کی جانب سے ہی مسجد کو توڑنے کی مہم چلانےوالوں کے سپرد کر دی گئی۔
بابری مسجد کےانہدام کے جرم میں اپنےرول کے بارے میں کلیان سنگھ نے لال کرشن اڈوانی اور دوسرے بی جے پی کے رہنماؤں کی طرح ہی الگ الگ وقت پر الگ الگ بیان دیے۔ انہیں لگا کہ موقع ٹھیک نہیں ہے تو اس فعل میں کسی بھی شراکت داری سے انہوں نے انکار کیا۔ لیکن جب لگا کہ اپنے لوگ ہی کوتوال اور منصف ہیں، تو سینہ ٹھوک کر اس کا ’سہرا‘ لینے وہ آگے آ گئے۔ اس سے ان رہنماؤں کی چالاکی کی تو آپ تعریف کر سکتے ہیں لیکن کیا انہیں بہادراور ایماندار بھی کہہ پائیں گے؟
بابری مسجد انہدام کا جرم ایک مسجد کے انہدام کا جرم تو تھا ہی لیکن لوگوں نے ٹھیک ہی اسے آزاد ہندوستان کی بنیاد پر ہی حملے کا نام دیا۔ بابری مسجد کا ملبہ ہندوستانی سیکولرازم کا ملبہ بھی تھا۔ بابری مسجد کےانہدام کے جرم کےذمہ داروں کو اگر سزا دی گئی ہوتی تو ہندوستان آج اس حال میں نہ ہوتا۔
یہ ہندوستان کا شورش زدہ دور ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کاسنہری دور۔ اس میں خدمات کے لیے کلیان سنگھ کو وہ پارٹی اعزاز دے، یہ اس کے نظریے سےمناسب ہی ہوگا۔ لیکن ملک ، اگر وہ صرف ایک پارٹی کا نہیں ہے، ایسے شخص کے بارے میں کیا رخ اختیار کرےگا جس نے سماج کو منقسم کرنے کے لیے صوبے کےوسائل کا اور آئینی اختیار کا استعمال کیا؟ اور قومی پرچم تو ملک کا ہے!
جب یہ سوال نہیں کیا جائےگا، دوسرا بے معنی ہوگا۔ قومی پرچم کو جب اکثریتی جرائم کو جائز ٹھہرانے کے آلے کےطور پر کام میں لایا جانے لگےگاتو وہ اپنی علامتی اہمیت کھو بیٹھےگا۔ پھر ایک ترنگے پر دوسرا دو رنگا پڑا ہو، اس سے کسے فرق پڑتا ہے؟ویسےیہ تصویر ایسے ہی ٹھیک ہے۔مرحوم کا جو رشتہ ان جھنڈوں سے تھا، ویسا ہی یہ تصویر بتلاتی ہے۔ جس شخص نے اپنی پارٹی کے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دیا، اس سے جڑی تصویر میں قومی پرچم کو پارٹی کے جھنڈے کے نیچے ہی دبا ہونا چاہیے۔
اس تصویر نے مجھے پریشان نہیں کیا۔ پریشان تب ہوا تھا جب دادری میں محمد اخلاق کےقتل کے ملزم کے جسدخاکی کو قومی پرچم سے لپیٹا گیا تھا۔ جب عید کے دن جامع مسجد پرغنڈوں کی بھیڑ قومی پرچم لےکر چڑھ گئی اور عبادت کرنے آئے مسلمانوں کو جھنڈا ہاتھ میں دینے کی زبردستی کرنے لگی، تب پریشان ہونے کاوقت تھا۔جب قومی پرچم کو کانوڑ بھگوا جھنڈےکے ساتھ لےکر چلنے لگے، تب سوال پوچھنے کا وقت تھا۔ جب قومی پرچم کو 207 فٹ کے کھمبے سے لہرانے کا حکم ساری یونیورسٹیوں کو دیا گیا، تب بھی سوال کرنے کاوقت تھا۔ اب ہم اس سےبہت آگے نکل آئے ہیں۔
ویسے جب کسی ملک میں قومی پرچم، قومی ترانہ،قومی نعرے وغیرہ پر ہی عوامی مباحثے زیادہ ہونے لگیں تو مان لینا چاہیے کہ اس کے ساتھ کچھ بھاری گڑبڑ ہو گئی ہے۔ پختہ اور مطمئن ممالک میں یہ بحث کاموضوع ہوں، یہ ان کے لیے شرم کی بات ہوگی۔ لیکن جب آپ دہلی کی ہر سڑک پر وزیر اعلیٰ کایہ فخریہ انداز دیکھیں کہ پہلی بار ان کی سرکار نے دہلی میں115 فٹ اونچا قومی پرچم لگایا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ عوام کو یہ رہنمااحمق مان چکے ہیں۔
جب ترنگے کی’توہین‘کی اس تصویرپراشتعال پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی تھی اسی وقت مدھیہ پردیش کے اندورشہر میں ایک مسلمان چوڑی فروش کو سرعام مارتے ہوئے، اس کی چوڑیوں کو توڑتے ہوئے غنڈوں کی تصویر بھی گھوم رہی تھی۔ اس پٹتے ہوئے مسلمان کی بے بسی اور بابری مسجد کے انہدام کے ہیروزمیں سے ایک کے جسم پر ڈال دیے گئے ترنگے کی بے بسی مجھے ایک سی لگی۔
اندور کی تصویر کے پہلے کانپور کےمسلمان رکشہ والے پر حملے کی تصویر۔ اس کے پہلے جنتر منتر پر مسلمانوں کےقتل عام کے نعروں کے ساتھ کی تصویر!اس کے پہلے ہریانہ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بیانات کی تصویر! اس کے بھی پہلے دہلی کے اتم نگر میں مسلمان پھل بیچنےوالوں پر حملے کی تصویر!اور اس کے بہت پہلے پھر اندور میں ہی آتش بازی کے سامان بیچنےوالے مسلمان دکاندار کو دھمکی کی تصویر!کیا ان تصویروں میں اور ترنگے کے ساتھ ’بدسلوکی ‘ کی تصویر میں کوئی رشتہ ہے؟ جب تک اس رشتہ کو ہم سمجھ نہیں لیتے، ترنگے کو لےکر ہمارا رونا صرف رونا گانا ہی ہوکر رہ جائےگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)