تحریر:ریحان فضل
’آسان ہے ایک مرد کی تلاش جو تمہیں پیار کرے
بس تم ایماندار رہو کہ ایک عورت کے روپ میں تم چاہتی کیا ہو
سب کچھ اسے سونپ دو
وہ سب کچھ جو تمہیں ایک عورت بناتا ہے۔
بڑے بالوں کی خوشبو، چھاتیوں کے درمیان بسی مہک
اور تمہاری عورت والی تمام بھوک‘
کملا داس نے جب یہ نظم لکھی تو انھوں نے روایتی مردانہ سماج کو ہلا کر رکھ دیا اور اس وقت یہ سوچا گیا کہ ایک ادیب اپنی نظموں میں اتنا بے تکلف اور ایماندار کیسے ہو سکتا ہے! اگر انڈین ادب میں کملا داس جیسی ادیب نہ ہوتیں تو جدید انڈیا کی تحریر کی وہ تصویر ابھر کر سامنے نہ آتی جس پر آج کی خواتین فحر کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں۔
جب ایک عام سی گھریلو خاتون پوری طاقت اور ہمت سے اپنے جذبات کو کاغذ پر اتارتی ہے تو ادب کی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ کملا داس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ آزادی سے 13 برس قبل 1934 میں کیرالہ کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ چھ سال کی عمر میں ہی انھوں نے نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔
اپنی سوانح عمری ’مائی سٹوری‘ میں کملا داس لکھتی ہیں ’ایک دفعہ گورنر کی بیوی ماویس کیسی ہمارے سکول آئیں میں نے اس موقع پر ایک نظم لکھی تھی لیکن ہماری سکول کی پرنسپل نے وہ نظم ایک انگریز لڑکی شرلی سے پڑھوائی، اس کے بعد گورنر کی بیوی نے شرلی کو اپنی گود میں بٹھا کر کہا تم کتنا اچھا لکھتی ہو! میں دروازے کے پیچھے کھڑی یہ باتیں سن رہی تھی۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’صرف یہی نہیں گورنر کی بیوی نے شرلی کے دونوں گالوں پر بوسہ دیا، اور ہمارے پرنسپل نے میری آنکھوں کے سامنے اس کا ماتھا چوما۔ پچھلے سال میں نے لندن کے رائل فیسٹیول ہال میں اپنی نظمیں سنائی تھیں۔ رات آٹھ بجے سے 11 بجے تک میں سٹیج پر تھی۔ جب میں سٹیج سے نیچے اتری تو کئی انگریزوں نے آگے بڑھ کر میرے گالوں کو چوما اس وقت میں نے سوچا، شرلی، میں نے تم سے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔
‘
بہادر اور بے باک خاتون
پندرہ سال کی عمر میں کملا داس کی شادی ریزرو بینک کے ایک افسر مادھو داس سے ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی ذاتی زندگی میں کملا داس کی تصویر ایک روایتی خاتون کے طور پر ابھرتی ہے جبکہ ان کی سوانح عمری اس کے بالکل برعکس شبیہہ پیش کرتی ہے۔
ان کے چھوٹے بیٹے جے سوریا داس، جو اس وقت پونے میں رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’میری ماں ایک عام عورت تھیں۔ اکثر ساڑھی پہنتی تھیں۔ کبھی کبھی وہ لنگی بھی پہنتی تھیں۔ انھیں زیور پہننے کا بہت شوق تھا۔ اور وہ اپنی کلائیوں میں 36 چوڑیاں پہنا کرتی تھیں جن میں سے 18 دائیں ہاتھ میں 18 بائیں ہاتھ میں پہنتی۔ وہ بہت جذباتی خاتون تھیں۔ وہ دن میں دو بار پانی کی بالٹی میں عطر ڈال کر غسل کرتی تھیں۔‘
سگریٹ کا پیکٹ بیٹے کے حوالے کیا
ان کے بڑے بیٹے مادھو نلپت جو اس وقت ’سنڈے گارجین‘ کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کملا داس آپ کے لیے سخت ماں تھیں؟
نلپت کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں، ایک بار جب میں 12-13 سال کا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میں سگریٹ پینا چاہتا ہوں، ماں نے فوراً مجھے سگریٹ کا ایک پیکٹ دیا میں نے اس وقت چار یا پانچ سگریٹ پیے تھے لیکن اس کے بعد میں نے ساری زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اگر میری والدہ کہتیں کہ سگریٹ نوشی بُری چیز ہے تو میں چپکے سے سگریٹ پینا چاہتا اور شاید میں اس کا عادی ہو جاتا۔ لیکن میری ماں نے مجھے صاف صاف کہا کہ سگریٹ پینے کا تجربہ تم بھی کرو اور اگر ٹھیک لگتا ہے تو اسے جاری رکھو۔‘
کملا داس نے اپنی سوانح عمری ’مائی سٹوری‘ میں اپنے بیٹے مادھو یعنی مونو کی نوعمر محبت کا ذکر کیا ہے۔
وہ لکھتی ہیں ’ایک بار میرے 15 سالہ بیٹے نے اچانک مجھے بتایا کہ اسے ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے۔ یہ ایک جرمن لڑکی تھی جس کا نام اینا تھا۔ وہ ہمارے گھر کی چھت پر فرانسیسی ادب اور مارکس کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار جب وہ چھٹیوں پر کولکتہ گئی تو میرے بیٹے نے بھی کہا کہ وہ بھی کولکتہ جانا چاہتا ہے۔ میرے شوہر نے کہا کہ ان کے پاس ایسی بچگانہ محبت پر ضائع کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘
مادھو بتاتے ہیں کہ ٹرین کے کرایے کے پیسے جمع کرنے کے لیے انھوں نے اپنی تمام پرانی کامِکس بیچ دیں۔ تب بھی وہ صرف تھرڈ کلاس کا ٹکٹ ہی خرید پائے تھے۔
ان کے پاس نہ کوئی بستر تھا اور نہ ہی اونی کپڑے۔ راستے میں ایک مزدور کو ان پر ترس آیا جس نے انھیں ’بیڑی‘ دی تاکہ وہ تھوڑی گرمی محسوس کر سکیں۔
کملا داس لکھتی ہیں ’اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو کر میرا بیٹا دانشور بن گیا۔ وہ رات گئے تک پڑھتا اور انڈین سیاست پر مضامین لکھتا اس کے مضمون اس دور کے کچھ رسالوں نے بھی شائع کرنا شروع کر دیے۔ جب میرے شوہر کا ممبئی تبادلہ ہو گیا تو میرے بیٹے کا دل ٹوٹ گیا لیکن اس لڑکی نے اسے ہمت دی وہ اس کی زندگی کا حصہ بن گئی۔‘
کملا داس لکھتی ہیں ’میں اور میرا بیٹا شام کو ممبئی میں ساحل سمندر پر ٹہلا کرتے تھے۔ ایک بنگالی خاندان کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ ہم پریمی ہیں۔ وہ لمبا ہو گیا تھا اور ہمیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم ماں بیٹے ہیں۔‘
کملا داس کی جگہ ’کے داس‘
اس زمانے میں کملا داس کی نظمیں مشہور ہفتہ وار میگزین ’اِلسٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا میں شائع ہوتی تھیں۔ شاعر کے نام کے نیچے ’کے داس‘ لکھا جاتا تھا کیونکہ کملا داس کو خدشہ تھا کہ اس کے ایڈیٹر شان مینڈی شاعراؤں کے خلاف متعصب ہوں گے۔
کملا داس نہ صرف خود ایک عظیم شاعرہ تھیں بلکہ وہ کئی ابھرتے ہوئے شاعروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک رندھیر کھرے تھے۔
کھرے کا کہنا تھا ’میں چوبیس پچیس سال کا ہوا کرتا تھا اور نظمیں لکھتا تھا۔ میں نے بہت سے بڑے شاعروں کے پاس جا کر مشورہ مانگا کہ میں کیسے بہتر نظمیں لکھوں کسی نے مجھے وقت نہیں دیا، کسی نے مجھے کملا کا نام تجویز کیا۔ جب میں نے انھیں فون کیا تو انھوں نے خود فون اٹھایا اور میری تمام نظموں کے ساتھ مجھے اپنے گھر مدعو کیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’وہاں انھوں نے ایک ایک کر کے میری چالیس نظمیں سنیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسی لگیں تو ان کا جواب تھا کہ میرے اچھا لگنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ نظمیں تمہیں خود کو اچھی لگنی چاہییں۔‘
’اس کے بعد انھوں نے مجھے اپنے گھر ہونے والی شاعروں کی ہفتہ وار بیٹھک میں مدعو کیا تب سے لے کر جب تک وہ حیات رہیں وہ میری گرو تھیں۔‘
ان دنوں کملا داس کے گھر ہر ہفتے ایک ادبی محفل سجتی تھی، جس میں شہر کے مشہور ادیب، شاعر، رقاص اور تھیٹر سے وابستہ لوگ جمع ہوتے تھے۔ رندھیر کھرے کہتے ہیں ان کا ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں وہ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھا کرتی تھی۔
وہاں نسیم ازکیل آتے تھے، پریتش نندی موجود ہوتے تھے اور بہت بزرگ ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے بھی حاضری دیتے تھے وہاں شاعروں میں جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ یہ محفل سہ پہر تین سے چار بجے تک شروع ہوتی اور رات گئے تک جاری رہتی، جو لوگ وہاں آتے تھے سب کو لگتا تھا کہ وہ اپنے گھر آ رہے ہیں۔
خود نوشت لکھنے کی مشکل
کملا داس کا خیال تھا کہ پوری ایمانداری کے ساتھ خود نوشت لکھنا اور کچھ نہ چھپانا، ایک ایک کر کے کپڑے اتارنے کے مترادف ہے۔ انھوں نے ایک بار لکھا تھا کہ ’میں پہلے اپنے کپڑے اور زیورات اتار کر رکھ دوں گی، پھر میری خواہش ہے کہ میں اس ہلکے بھورے رنگ کی جلد کے چھلکے اتار کر رکھوں دوں اور پھر اپنی ہڈیوں کو چکنا چور کر ڈالوں آخر میں تم میری بے گھر، یتیم اور بہت خوبصورت روح کو دیکھ سکو گے جو ہڈیوں، گوشت اور خون کے اندر کہیں گہرائی میں دفن ہے۔‘
کچھ ایسے ہی جذبات کو کملا داس کی ایک نظم میں پِرویا گیا تھا۔
جب بھی مایوسی کی کشتی،
آپ کو تاریکی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔
تو ان کناروں پر تعینات پہرے دار
پہلے آپ کو جلاوطن کرنے کا حکم دیں
تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو
تو کہتے ہیں اپنا گوشت بھی نوچ ڈالو
تو اپنی تمام جلد کے ساتھ اپنا گوشت بھی نوچ ڈالتے ہو
پھر کہتے ہیں کہ ہڈیاں بھی اکھاڑ دو
اور پھر تم اپنا گوشت نوچ نوچ کر پھینکنا شروع کر دیتے ہو
جب تک ہڈیاں مکمل طور پر ننگی نہ ہوں
اس جنون کا واحد اصول آزادی ہے
اور آزاد ہو، نہ صرف آپ کا جسم
بلکہ روح بھی کتر کتر کر کھا جاتے ہو
کملا داس نے 1999 میں اچانک اسلام قبول کیا۔ بعد ازاں اظہار رائے کے مطالبے پر ان کی جنونی اور قدامت پسند مذہبی حلقوں سے جھڑپ بھی ہوئی۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے دہلی میں ایک دل کو چھو لینے والی یادداشتیں سنائیں۔ انھوں نے بتایا کہ شوہر کی موت کے بعد تین بیٹوں کے باوجود وہ تنہائی کا شکار رہیں۔ جب ان کے دل میں مرنے کی خواہش پیدا ہوئی تو وہ برقعہ پہن کر ایک پیشہ ور قاتل کے پاس پہنچ گئیں۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم پیسے لے کر لوگوں کو مارنے کا کام کرتے ہو؟
غنڈے نے پوچھا کس کو مارنا ہے؟ کملا نے کہا ’مجھے کیونکہ میں زندگی سے تھک چکی ہوں لیکن اپنے ہاتھوں سے خود کو مارنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔‘ غنڈہ حیرت سے کملا داس کو دیکھتا رہا اور پھر انھیں سمجھا بجھا کر گھر واپس چھوڑ گیا۔
جب ان کی سوانح عمری پر کافی ہنگامہ ہوا تو انھوں نے کہہ دیا کہ یہ سچی کہانی نہیں ہے۔ میں نے رندھیر کھرے سے پوچھا، جو کملا داس کو قریب سے جانتے تھے، کیا آپ کے خیال میں ’مائی سٹوری‘ ایک حقیقی کہانی تھی یا محض تخیل کی پرواز؟
رندھیر کھرے نے جواب دیا، ’میں واڈیا کالج، پونے میں ایم اے کے طالب علموں کو پڑھاتا تھا۔ ایک بار انھوں نے بھی مجھ سے وہی سوال کیا جو آپ پوچھ رہے ہیں۔ میں تمام چالیس طالب علموں کو ان کے بیٹے جے سوریا داس کے پاس لے گیا، جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں۔ اس کے جواب میں کملا داس نے کہا کہ ہم جو کچھ بھی لکھتے ہیں، اس میں تخلیقی پہلو ہوتا ہے، کہاں حقیقت آتی ہے اور کہاں تخیل آتا ہے، اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ بات ہمیں چھوتی ہے یا نہیں، ہمیں اس سے ترغیب ملتی ہے یا نہیں؟ یہ ہمیں ہِلا رہا ہے یا نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔‘
(بشکریہ: بی بی سی اردو)