لکھنو:صدیق کپن نے لکھنؤ جیل سے باہر آنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "میں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میری بھرپور مدد کی۔ میرے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے اور مجھے 28 ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ جیل سے باہر آکر میں خوش ہوںصدیق کپن نے مزید کہا، "میں ان سیاہ قوانین کے خلاف لڑوں گا جن کے تحت مجھے جیل میں رکھا گیا۔ حتی کہ ضمانت ملنے کے باوجود مجھے جیل میں رکھا گیا۔ نہیں معلوم کہ مجھے 28 ماہ تک جیل میں رکھنے سے کس کو فائدہ ہوا۔ یہ دو برس میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے، لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں.انہوں نے آج تک کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ باہر آنے سے قبل جیلر مجھے ‘مشورہ’دیا کہ باہر میڈیا موجود ہے زیادہ نہ بولنا ورنہ تم پر اور مقدمہ لگاکر پھر یہاں بھیج دیا جاۓ گا،
کانگریسی رہنما اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک ٹوئٹ کرکے صدیق کپن کی رہائی کو بھارتی آئین کی فتح قرار دیا۔
صدیق کپن کے کل شام ہی جیل سے باہر آجانے کی توقع تھی لیکن ان کی رہائی اس لیے ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے ایک جج بار کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے۔
سپریم کورٹ نے صدیق کپن کو گزشتہ برس ستمبر میں ہی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف باضابطہ الزامات عائد نہیں کیے گئے ہیں لہذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ اترپردیش کی پولیس نے صدیق کپن پر منی لانڈرنگ اور ممنوعہ تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔ حالانکہ عدالت نے ان الزامات میں تین ماہ قبل ہی انہیں ضمانت دے دی تھی لیکن بیوروکریٹک پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی