تحریر:مرزا اے بی بیگ
جنوبی ریاست کرناٹک میں حجاب کے متعلق تنازع ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور گذشتہ دنوں ہائی کورٹ سے آنے والے حجاب مخالف فیصلے کو چند طالبات نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے جس پر سماعت ہونا ابھی باقی ہے۔
لیکن اسی دوران گذشتہ روز کرناٹک میں 12ویں بورڈ کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق ایک حجاب لینے والی طالبہ نے ریاست میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ انھوں نے 600 نمبروں میں سے 597 نمبر حاصل کیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر الہام کی اس کامیابی کا چرچہ ہے اور حجاب کے حامی اسے حجاب مخالف ریاستی فیصلوں کا جواب قرار دے رہے ہیں۔
الہام کا تعلق کرناٹک کے علاقے منگلور سے ہے۔ انھوں نے سائنس کے مضامین کے ساتھ امتحان پاس کیا ہے۔
کرناٹک میں پری یونیورسٹی امتحانات کے نتائج کا اعلان دو دن قبل کیا گیا اور بورڈ ٹاپ کرنے کے بعد جب حجاب میں ملبوس طالبہ الہام کا انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو لوگ ایک بار پھر حجاب کی باتیں کرنے لگے۔ بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ حجاب کسی کی صلاحیت کو کم نہیں کرتا اور کسی کی آزادی پر قدغن نہیں ہے بلکہ یہ خواتین کی اپنی پسند کا معاملہ ہے۔
بنگلور میں مقیم نمائندے عمران قریشی نے بتایا کہ الہام منگلور کے سینٹ الوئسیئس کالج کی طالبہ ہیں۔ اسی کالج کی انیشا مالیہ نے کامرس کے شعبے میں ریاست میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
الہام کے والد محمد رفیق نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے ’اللہ کا شکر‘ ادا کیا اور کہا کہ ’جب ہم نے الہام سے کہا کہ یہ تمہاری محنت کا نتیجہ ہے تو الہام نے انھیں بتایا کہ اس نے محنت کم کی تھی اور ذہن کا زیادہ استعمال کیا تھا۔‘ الہام کے والد کے مطابق ان کی بیٹی یہ بات کرنے کے بعد ہنسنے لگی۔
حجاب سے متعلق ایک سوال کے جواب میں محمد رفیق نے کہا کہ ’ہم (والدین) نے اسے یہ آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جو پڑھنا چاہتی ہے وہ پڑھے اور جس تعلیمی ادارے میں جانا چاہتی ہے، وہاں جائے۔ تو پھر حجاب بھی ان (الہام) کی ہی پسند ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الہام کا کہنا تھا کہ ’آپ اگر اپنی پوری کوشش کرتے ہیں تو نتائج بھی اسی کے مطابق آتے ہیں۔‘
الہام کو ریاضی، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی میں 100 میں سے 100 نمبر ملے ہیں، انگریزی میں 99 جبکہ ہندی میں 98 نمبر ملے ہیں۔
حجاب کے معاملے میں انھوں نے کہا کہ یہ لوگوں کی اپنی پسند ہے جس طرح کھانا اپنی پسند ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ تعلیم سب کا حق ہے اور اسے کسی یونیفارم یا ڈریس کا محتاج نہیں۔
انھوں نے دلی میں فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ آگے کلینکل سائیکالوجی یعنی (علم نفسیات) پڑھنا چاہتی ہیں اور دسویں کلاس سے ہی سے اُن کی اس میں دلچسپی ہے۔
الہام کے والد نے بتایا کہ اُن کی بیٹی نے بورڈ میں دوسری پوزیشن جبکہ اپنے کالج میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ الہام کا چھوٹا بھائی ساتویں جماعت میں ہے۔
ہر چند کہ یہ کنبہ ریاست میں جاری تنازع سے دور ہے لیکن سوشل میڈیا پر الہام کو کافی سراہا جا رہا ہے اور انھیں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
صحافی علیشان جعفری لکھتے ہیں: ’الہام نے 600 میں سے 597 نمبر حاصل کیے اور کرناٹک کے پی یو سی میں دوسرے نمبر پر آئیں۔۔۔۔ دوسری چیزوں کے ساتھ وہ حجاب بھی پہنتی ہیں اور ریاست یا وجیلانتوں (نگرانی کرنے والوں) کو اس وجہ سے انھیں پریشان کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ یہ بات عدالت کہے۔‘
بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ الہام کا رزلٹ یہ بتاتا ہے کسی کی تعلیم اور ترقی میں حجاب مانع نہیں ہے۔
آصف مجتبیٰ نامی ایک صارف نے لکھا: ’کہاں ہیں وہ احمق جو یہ سبق دیتے ہیں کہ حجاب جبر و ستم کی علامت ہے۔ اس لڑکی کو سُنیں جس نے اپنے امتحانات میں اسی ریاست میں ٹاپ کیا ہے جہاں حجاب پر پابندی کی بات جاری ہے۔ یہ اسلام مخالف پروپگنڈے پر ایک تمانچہ ہے۔ اس کے اعتماد اور اس کی مسکراہٹ کو دیکھیں ماشاء اللہ۔
واضح رہے کہ ریاست کرناٹک میں رواں سال کے اوائل سے سکول میں حجاب کے خلاف مہم نظر آئی ہے اور حکومت نے ابھی تک اس معاملے میں سکول یونیفارم پر زور دیا ہے جبکہ عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ چونکہ حجاب اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل نہیں اس لیے حکومت کا فیصلہ ہی نافذالعمل ہو گا۔
حجاب کے تنازعے کا شکار لڑکیوں کے علاوہ چند رضاکار تنظیموں نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے اور ان کا سوال ہے کہ کیا ریاست کسی حجاب پہننے والی سٹوڈنٹ کی تعلیم میں مداخلت کر سکتی حالانکہ اس کے حجاب پہننے سے کسی کو کئی نقصان نہیں اور یہ کہ ان کا یہ کامل یقین ہے کہ حجاب ان کے مذہب پر عمل کا حصہ ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)