برطانیہ نے پیر کے روز کہا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی کچھ برآمدات معطل کر دے گا۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق ایک ”واضح خطرہ‘‘ موجود ہے کہ یہ ہتھیار بین الاقوامی انسان دوست قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے کہا ہے کہ وہ لندن حکومت کے اس فیصلے پر ”سخت مایوس‘‘ ہیں۔دریں اثنا اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتین یاہو نے کہا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کو بچانے میں ناکامی پر معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے ایک ٹیلی وژن پریس کانفرنس کے دوران کہا، ”حماس کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘ اسی دوران انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں کسی بھی قسم کی کوئی ”رعایت‘‘ نہیں دی جائے گی۔
اس موقف کے جواب میں حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر اپنا فوجی دباؤ برقرار رکھتا ہے، تو باقی یرغمالی بھی ”تابوتوں کے اندر‘‘ واپس جائیں گے۔ ابو عبیدہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ”قیدیوں‘‘ کی حفاظت کرنے والے عسکریت پسندوں کو ”نئی ہدایات‘‘ دی گئی ہیں کہ اگر اسرائیلی فوجی ان کے پاس پہنچیں، تو انہیں کیا کرنا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے واشنگٹن میں قطر اور مصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے امریکی مذاکرات کاروں سے ملاقات کی تاکہ جنگ بندی کے اس معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے، جس کے تحت اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے غزہ میں باقی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جانا ہے۔جب نامہ نگاروں نے صدر جو بائیڈن سے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں نیتن یاہو یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کرنے کے لیے کافی کام کر رہے ہیں، تو صدر بائیڈن نے جواب دیا، ”نہیں۔‘‘
نیتن یاہو نے پیر کو ایک مرتبہ پھر کہا تھا کہ اسرائیل کو مصر کے ساتھ سرحد پر غزہ کے ایک اہم ”فلاڈیلفی کوریڈور‘‘ کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے۔ حماس اور اسرائیل کے مابین جاری مذاکرات میں یہ ایک اہم نکتہ ہے کیوں کہ حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل وہاں اپنا کنٹرول ختم کرے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے غزہ کی جنگ کو طویل کر رہے ہیں۔
نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ اسرائیل کے اندر بھی نتین یاہو پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اتوار کے روز غزہ پٹی میں چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد پیر کو اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ”ہسٹاڈروٹ‘‘ نے ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی تھی۔ تاہم اسرائیل کے چند بڑے شہر اس سے متاثر نہیں ہوئے تھے اور ایک عدالتی حکم کی وجہ سے یہ ہڑتال ختم کرنا پڑی تھی۔پیر کو ہزارہا افراد تل ابیب کی سڑکوں پر نکلے اور مظاہرین نے ایسے نعرے لگائے، ”یہ ہمارے لیے آخری موقع ہے! ابھی ڈیل کرو!‘‘