تحریر: نکولس کرسٹوف
امریکا پر ایک بڑا اور بدنما داغ یہ ہے کہ دنیاکے امیر ترین اور سب سے طاقتور ملک نے بچوں کی غربت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ چند روز قبل صدر جو بائیڈن کی طرف سے منظوری کے بعد 1.9 ٹریلین ڈالر کے ریسکیو پلان کے ذریعے امریکا نے اس داغ کو دھونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پیکیج کی تاریخی شقیں وہ ہیں جو بچوں میں غربت میں کمی لانے کا باعث بنیں گی۔ کولمبیا یونیورسٹی کی ایک سٹڈی کے مطابق اگر ان اقدامات کو مستقل شکل دے دی جائے تو اس سے بچوں میں پائی جانے والی غربت آدھی رہ جائے گی۔ صدر جو بائیڈن بچوں کے لیے وہی کچھ کر جائیں گے جو کچھ فرینکلن روزویلٹ نے سوشل سکیورٹی کے ذریعے بزرگ شہریوں کیلئے کیا تھا۔ یہ امریکی تاریخ میں ایک انقلاب بھی ہے اور تاخیر سے کیا گیا اعتراف بھی کہ افلاس کے شکار بچوں پر سرمایہ کاری میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ اس سے ملنے والے ممکنہ ثمرات کو سمجھنے کے لیے ہمیں دنیا کے دوسرے کونے تک سفر کرنا ہو گا۔
بنگلہ دیش کا قیام آج سے پچاس سال قبل عمل میں آیا تھا‘ اس وقت وہاں بھوک کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہنری کسنجر نے کبھی اسے ایک ’’باسکٹ کیس‘‘ قرار دیا تھا۔ 1974ء کی قحط سالی کی خوفناک تصاویر نے اس ملک کے مسائل کے لاعلاج ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ پھر1991ء میں بنگلہ دیش میں ایک ہولناک سمندری طوفان آیا جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ میں نے اس وقت نیویارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں اسے بنیادی طور پر ایک بدقسمت ملک قرار دیا تھا۔ میری یہ بات ٹھیک بھی تھی کہ بنگلہ دیش کو صر ف ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہی نہیں بلکہ کئی طرح کے سنگین چیلنجز کا سامنا تھا۔ مگر مجموعی طور پر میری ساری تنقید اور مایوسی غلط ثابت ہوئی کیونکہ پچھلے تین عشروں میں بنگلہ دیش نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ معاشی شرح نمو میں مسلسل اضافہ ہوا اور عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق کووڈ سے پہلے مسلسل چار سال تک اس نے سات سے آٹھ فیصد سالانہ شرح سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہ چین سے بھی زیادہ تیز رفتار ترقی ہے۔ بنگلہ دیش میں اوسط عمر 72 سال ہو گئی ہے جو امریکا کے کئی علاقوں سے بھی بہتر اوسط عمر ہے۔ شاید بنگلہ دیش کو ایک لاعلاج ملک کہا جاتا ہو مگر اب تو یہ دنیا کو سکھاتا ہے کہ ترقی کیسے کرنی ہے۔ بنگلہ دیش کی اس ترقی کا راز کیا ہے؟ وہ ہے تعلیم اور خواتین۔1980ء کی دہائی سے پہلے صرف ایک تہائی بنگلہ دیشی شہری اپنی ایلیمنٹری سکول کی تعلیم مکمل کر پاتے تھے۔ خاص طور پر بنگلہ دیشی لڑکیاں تو شاید ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں‘ یوں ملکی ترقی میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر اس کے بعد حکومت اور سماجی تنظیموں نے تعلیم کے فروغ کے لیے کام شروع کر دیا۔ سب سے زیادہ زور خواتین کی تعلیم پر دیا گیا۔ آج بنگلہ دیش کے 98 فیصد بچے اپنی ایلیمنٹری تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں جینڈر گیپ بہت زیادہ ہے‘ حیران کن بات یہ ہے کہ اب بنگلہ دیشی سکولوں میں لڑکوں سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ نوبیل پرائز یافتہ بینکر یونس حبیب‘ جنہوں نے بنگلہ دیش میں مائیکرو فنانس متعار ف کرایا تھا‘ نے مجھے بتایا کہ بنگلہ دیش میں جو ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی ہے‘ وہ عورت کا سٹیٹس ہے اور یہ غریب ترین خواتین سے شروع ہوئی۔ یونس حبیب گرامین بینک کے بانی ہیں جس نے خواتین کو ورکرز سے بزنس مالکان میں تبدیل کر دیا۔ موبائل فون بیچنے والی ایک لاکھ سے زائد خواتین چار سال میں ’’ٹیلیفون لیڈیز‘‘ بن گئیں جس نے نہ صرف ان کی بلکہ ملک کی معاشی حالت بھی بدل کر رکھ دی۔ چونکہ بنگلہ دیش نے اپنی خواتین کو تعلیم دی اور انہیں بااختیار بنایا تو یہی خواتین بنگلہ دیشی معیشت کا ستون بن گئیں۔ گارمنٹس کی صنعت نے خواتین کو ترقی کے بہتر مواقع فراہم کیے۔ اس وقت آپ نے جو شرٹ پہنی ہوئی ہے‘ ممکن ہے یہ ان خواتین میں سے ہی کسی کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہو کیونکہ گارمنٹس میں چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔مانا کہ بنگلہ دیشی فیکٹریاں مغربی معیار کے مطابق ان خواتین کو بہت کم معاوضہ دیتی ہیں اور وہاں جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کے مسائل بھی موجود ہیں‘ آتشزدگی اور سیفٹی کے مسائل بھی ہیں۔ 2013ء میں ایک فیکٹری میں خوفناک تباہی ہوئی جس میں گیارہ سو سے زائد کارکن ہلاک ہو گئے تھے مگر ورکرز کہتے ہیں کہ چودہ سال کی عمر میں شادی کرنے یا دھان کے کھیتوںمیں کام کرنے سے یہ ملازمت پھر بھی بہتر ہے۔ یونینز اور سو ل سوسائٹی نے بہت دبائو ڈالا اور ورکرز کی سیفٹی کے معاملات میں بہتری لانے میں خاصی کامیابی ہوئی۔ تعلیم یافتہ خواتین کو غیر منافع بخش تنظیموں مثلاً گرامین بینک وغیرہ میں بھی خالی اسامیوں پر کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ویکسین لگوا لی۔ جگہ جگہ ٹائلٹس بنوائے۔ دیہاتیوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ خواتین کو فیملی پلاننگ سکھائی اور کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی ۔ بنگلہ دیش کے پاس بڑے بڑے سیاسی لیڈر نہیں ہیں مگر اس نے انسانی وسائل میں جس طرح سرمایہ کاری کی ہے‘ اس نے ان کے معاشرے میں ایک تحرک پیدا کیا ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
عالمی بینک بنگلہ دیش کو کامیابی کی ایک لازوال کہانی قرار دیتا ہے جہاں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد کو خط غربت سے نکالنے میں صرف پندرہ سال لگے۔ 1991ء کے بعد بچوں میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ صرف نصف رہ گیا اور بنگلہ دیش اب اس میدان میں بھارت سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ دنیا اس کامیابی پر حیران ہے۔ آبادی میں اضافہ ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیتا ہے مگر بنگلہ دیشی عورت جو پہلے اوسطاً سات بچے پیدا کرتی تھی‘ اب صرف دو بچے پیدا کر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش نے اپنے سب سے کم استعمال شدہ اثاثوں یعنی اپنے غریب طبقے میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس دوران حکومت کا سارا فوکس پسماندہ اور سب سے کم پیداواری شعبوں پر رہا کیونکہ وہیں سے سب سے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ یہی سب کچھ امریکا پر بھی صادق آتا ہے۔
ہم اپنے ارب پتی افراد سے مزید پیداوار نہیں لے سکتے مگر ہمیں بہت زیادہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے سات میں سے ایک بچے کی مدد کریں جو ہائی سکول سے اپنی گریجویشن مکمل نہیں کر سکتا۔ یہی وہ اقدام ہے جس کے ذریعے صدر جو بائیڈن بچوں میں غربت اور افلاس ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کا مرکزی نکتہ ریفنڈ ایبل چائلڈ ٹیکس کریڈٹ ہے جسے مستقل کر دینا چاہئے۔ بنگلہ دیش دنیا کو یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں پسماندہ بچوں پر محض خدا ترسی کرتے ہوئے ہی سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے ملک کی ترقی کے خیال سے یہ سب کچھ کرنے کی ضرور ت ہے۔
((بشکریہ: نیویارک ٹائمز