عبدالسلام عاصم
وطن عزیز میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضمانت نہ سابقہ نام نہاد سیکولر حکومتیں دینے میں کامیاب رہیں نہ موجودہ بظاہر قوم پرست حکومت پر اِس کے لئے انحصارکیا جا سکتا ہے۔ اصل میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول سماج بناتا ہے یا بگاڑتا ہے۔ یہی سماج حکومتیں بھی تشکیل دیتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر جیسا سماج ہو گا ویسا ہے معاشرے کا ہر روز گزرنے والا آج ہوگا۔ملک کا انتطام چلانے والے ارکان آسمان سے نہیں اترتے۔ یہ ہمارے ہی سماجی گھروں میں پرورش پاکر بڑے ہوتے ہیں اور زندگی کے ایک سے زیادہ شعبوں میں قدم رکھتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک شعبہ سیاست کا ہے۔
بٹوارے کے صدمے کے ساتھ آزاد ہونے والا ہندستان اگر آج بھی تقسیم کے کرب سے نجات نہیں پا سکا ہے تو اس کا بنیادی طور پرذمہ دار نہ تو برطانیہ ہے اور نہ وہ ممالک جو کبھی متحدہ ہندستان کا حصہ تھے۔خرابی گھر کی ہوتی ہے، باہر سے صرف بڑھاوا ملتا ہے۔ ہندستان کی آزادی کی تحریک اگر سماجی بیداری کا نتیجہ تھی تو اِس آزادی کے جسم پر تقسیم کا گھاو بھی نام نہادسماجی ٹھیکے داروں نے ہی لگا یا تھا۔آخرایسا کیا ہوا کہ جس آزادی کی تحریک کے آغاز میں سب ساتھ تھے، منزل سے قریب آکر مٹھی بھر سازشیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہ سازشی عناصر سماج کے ہر طبقے میں موجود تھے۔ ان عناصر کی واضح پہچان یہ ہے کہ یہ سماجی بیداری کے نام پر غیر ضروری کروٹ لینے کی عام تائید حاصل کر لیتے ہیں۔اَن کے محدود مفادات کی قیمت سماج کو اجتماعی طور پر چکانا پڑتی ہے!
یہ’’ تعلیم یافتہ‘‘ لوگوں کے بھیس میں ’’علم زدگان ‘‘ ہوتے ہیں ۔ یہ اپنی محدود نظریاتی سوچ کو علم کا نام دے کر نسلوں کی تباہی کا انتطام کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جومشترکہ مجلسوں میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انسان اپنے کردار سے بھلا یا بُرا ہوتا اور انفرادی مجالس میں یہی لوگ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے نام پر تفریق کا درس دیتے ہیں۔ایسے لوگ ہر مکتب فکر میں پائے جاتے ہیں ۔ اِ نہیں اپنے مذموم مشن میں کامیابی اس لئے مل جاتی ہے کہ یہ تھوک کے حساب سے خالی دماغوں کی کنڈیشننگ کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس حقیقی تعلیم چونکہ ری کنڈیشننگ پر منحصر ہے اس لئے اِس مشن کو چلانے والوں کو خالی دماغ نسبتاً بہت کم دستیاب ہیں۔
وطن عزیزمیں فرقہ وارانہ محاذ پر سرِ دست جو صورتحال ہے وہ بالکل نئی نہیں ہے۔ اس کا نیا پن صرف نئے چہروں سے تعلق رکھتا ہے۔ باقی ساری خرابیاں وہی ہیں جو ہم جھیلتے آئے ہیں۔ہم دونوں کل کی طرح اگر آج بھی تاریخی نفرتوں کے شکار ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی اچھائی کے رُخ پر ہم صرف اپنا کردار سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ ایک کے نزدیک اسلام حملہ آوروں کے ساتھ ہندستان آیا تھا تو دوسرے کے نزدیک ایسا بالکل نہیں تھا۔ دونوں کے پاس تاریخی حوالے ہیں۔کاش تاریخ نویسی جانبداروں کے ہتھے نہ چڑھی ہوتی اور عہد بہ عہد تاریخ کی درستگی کے نام پر اندازوں کو واقعات کی شکل نہ دی گئی ہوتی۔ ہو نا تویہ چاہئے کہ مذہبی اور ثقافتی دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ مخلوط سماج میں یکطرفگی کہ جگہ لازمی طور ہمہ جہتی لے لے ۔افسوس کہ اِس رُخ پر صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا گیا۔ واقعی محنت کی گئی ہوتی تومہاتما گاندھی کے ایشور اللہ تیرے نام کے بعدراکیش ٹکیت کو ا للہ اکبر ہرہر مہادیو کا نعرہ لگانے کی لاحاصل ضرورت نہیں پڑتی۔
سابقہ سات دہائیوں میں جہل اور علم دونوں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ علم کی دنیا نے بین انحصاری سے استفادہ کر کے دنیا کو ایک عالمی گاوں میں بدل دیا ہے جس میں رہنے والے پلک جھپکتے ایک دوسرے کی خوشی اور غم سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور جہل کی دنیا میں کسی کے دُکھ سے خوشی کشید کرنے کیلئے نفرت کی کاشت میں بین فرقہ انحصار کیا جاتا ہے۔علم کی دنیا جہاں جستجو، تشکیک اور مشاہدے کے نتائج سامنے لاکر اُس کی روشنی میں سنبھل سنبھل کر آگے بڑھتی ہے وہیں جہل کی دنیا میں اندھے یقین کا کاروبار انتہائی اعتماد کے ساتھ کیا جاتا ہے اور روایات کو شہادت کا درجہ دے کر اُنہیں رٹتے رہنے کو مطالعے کا نام دے دیا جاتا ہے۔اس منظر کا افسوسناک پس منظر یہ ہے کہ علم اور جہل دونوں کے کاروبا ر کوجاری رکھنے میں اعتدال پسند گھرانوں کا زبردست عمل دخل ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ مذہبی منافرت کو خونریز طریقے سے انجام دینے میں سماج دشمن عناصر کو بعض ایسے لوگوں کا بھی اشتراک حاصل ہو جاتا ہے جو زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ علم سے لیس ہوتے ہیں۔
سماج کو آزادانہ طور پر آگے بڑھنے دینے کے بجائے اسے تابع رکھنے کا جذبہ اس صورتحال کا اہم محرک ہے۔ اِس کی تازہ نظیر ہم اپنے ایک دور کے ہمسائے کے یہاں دیکھ سکتے ہیںجہاں اختلاف رائے رکھنے والوں کو خوف و ہراس کی چہار دیواریوں میں محصور کر دیا گیا ہے۔برصغیر کے دوسرے ملکوں بشمول ہندو پاک میں بھی یکتائی اور یک جہتی سے ایک بڑا حلقہ یہ مفہوم اخذ کئے بیٹھا ہے کہ سب کسی ایک غیر سائنسی عقیدے کو ماننے والے بن جائیں، حالانکہ یہ فلسفہ قانون ِ فطرت کے سراسر خلاف ہے۔جہاں تک مشترکہ تہذیبی اقدار کا تعلق ہے تو وہ سائنسی خطوط پر ہی فروغ پا سکتی ہے۔غیر سائنسی رویے میں کوئی لچک نہیں ہوتی اور اُس میں ہر اُس شخص کا دم گھٹنے لگتا ہے جو روبوٹ بننے کو تیار نہیں۔
چند الفاظ کی ایک ترکیب ایک زمانے سے ایک لاحاصل سعی کا عنوان بنتی آرہی ہے۔ یہ ترکیب کچھ اس قسم کی ہوتی ہے ’’بین مذاہب ہم آہنگی ‘‘ ۔ اِ س عنوان کے تحت ابتک کئی محل اور مقبرے تو بن گئے لیکن سماج کا کچھ نہیں بن سکا۔البتہ ہو یہ رہا ہے کہ شادی اور محبت جیسے جذبوں مذہب کے نام پر قربان کیا جارہا ہے۔ ہمارے یہاں لَو جہاد کی ایک عجیب و غریب ترکیب کو اتنا رٹا گیا کہ اب یہ مرکب زبان زد عام ہے۔اِس رُخ پر قانون سازی بھی کی جارہی ہے ۔ جو بظاہر مذہبی لوگ اس سے متفق نہیں وہ بھی اُلجھے ہوئے ہیںکیونکہ انسانی رشتے کی عظمت کے حق میں وہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتے۔بین مذاہب ہم آہنگی کے ایک سے زیادہ اجلاس میں شرکت کے بعد میں اسِ نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اِس سوچ کی تمام تر تنگی میں گنجائش کی جو بات کی جاتی ہے وہ ذہنی تربیت کے برعکس ہے۔ہمارے ایک عزیزی کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ موذن صاحب کو ہفتے میں تین دن ناقوس پھونکنے اور پنڈت جی کو تین دن اذان دے کر ایک دن چھٹی منانے کی بے ہنگم صلاح بھی دیدی جائے۔چند سال قبل ایک ایسے ہی اجلاس میں ایک فرقے کو موجود نہ پاکر ایک منتظم سے میں نے وجہ دریافت کی تو اِس جملے میں جواب ملا ’’ہم اُس فرقے کو نہیں مانتے‘‘۔
کھانے پینے سے پہننے اوڑھنے تک جہاں اعتراض ہی اعتراض ہو وہاں بین فرقہ ہم آہنگی کی صرف باتیں کی جا سکتی ہیں، کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔وجہ صرف یہ ہے کہ حقیقی علم کا فقدان ہے۔مقصدِ کُن کی تکمیل کے آسمانی کتابوں میں جتنے نکات پیش کئے گئے ہیں اُن میں کسی بھی نکتے کا تعلق کسی ضد یا ہٹ سے نہیں بلکہ تفہیم سے ہے۔ اسی طرح کائنات کی تسخیر کی جتنی بھی کوششیں کی جارہی ہیںوہ انہی نکات کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ صراط مستقیم ایک وسیع مرکب ہے اور سائنسی ایجاد GPS اِسی کا مظہر ہے۔آسمانی کتابوں میں رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کوجہاں صرف بائی ڈیفالٹ پہچان قراردیا گیا ہے وہیں ایسی کسی پہچان پر تکبر کرنے سے پیغمبر اسلام نے بھی اپنے آخری خطبے میں منع کیا تھا۔سائنس بھی اسی کاتائید کرتا ہے اور انسانی ذہن کو وہ کسی فرقے یا نسل کا اجارہ قرار نہیں دیتا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)