خالد سیفی اس تحریک میں سرگرم تھے جو 2019 میں شہریت کے امتیازی سلوک کے خلاف ہندوستان بھر میں شروع ہوئی تھی۔ مسلمانوں ، دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف تشدد کے خلاف ’یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ‘ نام سے ایک تنظیم تشکیل دی گئی، یہ تنظیم تشدد اور نفرت کے تمام واقعات کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ تشدد کے متاثرین کی ہر طرح کی مدد کا کام کررہی تھی۔ اس کے علاوہ یہ نفرت کی جگہ محبت کی ایک منظم مہم بھی تھی ۔اس تنظیم پر وزارت داخلہ نے 2020 میں دہلی کے شمال مشرقی حصے میں تشدد کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا ۔ خالد سیفی نے مساوی شہریت کی اس تحریک کو پرامن رکھنے اور اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
اسی وجہ سے پچھلے سال 26 فروری کو انھیں گرفتار کرکے ان کے اوپر یو اے پی اے جیسے انسداد دہشت گردی کے نام نہاد قانون کی دفعاتلگا دی گئیں ، اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ وہ ایک سال سے جیل میں بند ہیں اور ہندوستان میں انصاف کے منتظر ہیں۔ تہاڑ جیل سے خالد سیفی نے اپنے بچوں کویہ خط لکھا ہے۔ اس سے ہمیں خالد کے مزاج کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔
نرگس ، میرے بچوں اور دوستوں کو سلام! یکم اکتوبر 2020 کو مجھے وارڈ نمبر 4 سے وارڈ نمبر 2 میں بھیجا گیا تھا۔ وارڈ کی مسجد میں ہم تین وقت کی نماز ظہر ، عصر اور مغرب ادا کرتے ہیں ۔ جب میں مسجد پہنچا تو سب لوگ مجھے امامت کو کہنے لگے۔وہاں جو امام صاحب تھے ان کی حال ہی میں ضمانت ہوئی تھی۔ میں نے وہاں امامت شروع کردی۔ افسران اور کچھ ساتھیوں نے مسجد کے آس پاس کچھ پودے لگائے ہوئے ہیں ۔ جب میں وہاں گیا تھا تو اس گلاب کے پودے میں کچھ بنا کھلی ہوئی کلیاں تھیں ، جو کچھ دنوں میں کھلنے شروع ہوئیں اور پھر آہستہ آہستہ وہ پودہ گلاب کے سفید پھولوں سے بھر گیا ۔ پھولوں کا رنگ وقتاً فوقتاً بدلتا رہا۔ جب کلی کھلی تو گہرے گلابی رنگ کی تھی۔ پھر تھوڑی اور کھلی توہلکے گلابی رنگ کی ہوگئی اور جب پھل بنا تو وہ پورا سفید ہوگیا۔ دو دن میں وہ پودا سفید گلابوں سے بھر گیا اور وہ بہت ہی دلکش نظارہ بن گیا ۔ میں اکثر نماز کے بعد اللہ کی خوبصورت مخلوق کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ان پھولوں کو دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آنے لگا۔ کسی پھول میں مجھے اپنی امی نظر آتی تھی ، تو کسی پھول میں مجھے اپنا پریوار نظر آتا تھا ، اس پودے میں ایک گچھا تھا چار پھولوں کا، جس میں مجھے نرگس، یسہ، طہٰ اور مریم نظر آتے تھے۔ تین چار دن پورے شباب پر رہنے کے بعد آہستہ آہستہ سارے پھول مرجھا گئے۔ ان کی پنکھڑیاں بے رنگ ہوگئیں اور گرنے لگیں۔ پھولوں کا گچھا مرجھایااس دن میری آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ ایسا لگا کہ وہ پھول میرے کہانی بیان کررہے تھے۔ پہلے ہم سب ساتھ۔ ساتھ تھے اور خوب چہک اور مہک رہے تھے۔ پھر اچانک ایک اداسی چھا گئی اور سب ویران ہو گیا ۔ بہت دیر تک میں ایسے ہی سوچتا رہا کہ کس طرح میری ہنستی کھیلتی زندگی مرجھا سی گئی۔ اگلے دن جب میں نماز کے دوران سجدہ کرنے گیا تو مجھے اچھی خوشبو محسوس ہوئی۔ نماز کے بعد پیروں کے نیچے پھولوں کی پنکھڑیاں جو نیچے گر گئیں تھیں، ایک خوبصورت سفید چادر بن گئی تھی اور ان سے خوشبو آ رہی تھی۔پھر ایک دن میں نے اس پودے پر دوبارہ کچھ کلیوں کو دیکھا۔جب میں نے انہیں دیکھا تو میں بہت خوش ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی کو زندگی میں بہت خوشی مل گئی ہو۔ جلد ہی قرآن کی آیت دل میں یاد آئی:انَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا:’بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔‘ تقریباً 12 ماہ کے اس عمل نے فلسفہ حیات کو سمجھادیاہے۔ جب بھی دل افسردہ ہوتا ہے یا مایوسی کی طرف جاتا ہے ، میں اس گلاب کا پودا دیکھتا ہوں جو اب میرا ایک اچھا دوست بن گیا ہے۔میں اس کے قریب بیٹھتا ہوں اور خود اس خاموش استاد سےسبق لیتا ہوں۔ زیادہ خط کی اجازت یہاں نہیں ہے لہٰذا میں یہاں رکتا ہوں۔ کچھ دوسری باتیں ہیں جو میں انشاء اللہ مزید لکھوں گا۔ آپ سب کو میرا سلام اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا ،یسہ ، طہٰ اور مریم ابو آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور آپ کو بہت سارا پیار۔