ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہمارے ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، لیکن اب تک اس کی روک تھام کے لیے کوئی بحث ہوتی دکھائی نہیں دیتی، ضروری ہے کہ ہجومی تشدد یعنی ماب لنچنگ اور اس کی وجوہات نیز سدباب پر گفتگو ہو، ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، نظام جمہوریت میں ایک ایسا جرم جو نہ صرف سنگین ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرم مانا جاتا ہے۔ یہ ہجومی تشدد اب کبھی بھی اور کہیں بھی بہت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ ہجومی تشدد کے اسباب میں خاص طور سے افواہ، جھوٹی خبر، نفرت آمیز اشتعال انگیز نعرے یا معلومات اور بیداری کی کمی اہم ہیں۔ ان بنیادی اسباب کے ساتھ اگر حکومت میں بیٹھے فرقہ وارانہ عناصر کی پشت پناہی حاصل ہو تو بلا خوف و جھجھک کہیں بھی ایک بھیڑ جمع ہوسکتی ہے اور کسی بھی شخص کو اپنا شکار بنا سکتی ہے۔ ہجومی تشدد کا شکار ہونے والا یہ شخص عموماً سماج کے دبے کچلے اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے، اس وجہ سے ہمارے ملک میں ابھی تک کوئی تحریک یا افراد اس سماجی مسئلہ کو لے کر بہت زیادہ سنجیدہ محسوس نہیں ہوئے ہیں، پریس کانفرنس اور کچھ جذباتی مظاہروں سے باہر نکل کر کسی بھی قانونی یا دستوری لڑائی کے لیے ہم یا ہمارا سماج ابھی تک تیار نہیں ہوسکا ہے۔
ماب لنچنگ کا مطلب ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی بھی الزام میں، قانونی چارہ جوئی کے بغیر ہجوم کے ذریعے ہی قتل کردیا جائے۔ حالیہ برسوں میں ہجومی تشدد کو نفرت آمیز جرائم میں سب سے زیادہ ہونے والا جرم کہا جاسکتاہے۔ کسی خاص پہچان یا کسی خاص اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر، یا کسی بھی اجنبی کو شک و شبہات کی بنیاد پر، بآسانی ہجومی تشدد کا شکار بنا لیا جاتا ہے۔ ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ ہجوم کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ انصاف کی بحالی کے لیے قانون ہاتھ میں لینا ضروری ہے کیونکہ بس وہی اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں، یعنی ہر ہجومی تشدد کے واقعہ کے پیچھے کچھ افراد بھیڑ کی رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی بنیادی خصوصیت ہے کہ لوگوں کے حق برائے زندگی و آزادی کو تحفظ فراہم کیا جائے، شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا نیز لاء اینڈ آرڈر کو قائم رکھنا حکومت و حکومتی اداروں کی دستوری ذمہ داری ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں شہریوں کی زندگی و آزادی کا حق پوری طرح پامال ہورہا ہے اور پامال کرنے والوں کو قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے۔
ہجومی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھ کر ضروری ہے کہ ہم اس سنگین مسئلہ کو قانون کی مدد سے روکنے کی کوشش کریں۔ گزشتہ چند برسوں میں ماب لنچنگ کے واقعات میں ہونے والی تیزی نے ہمیں اپنے قوانین اور پولیس و عدلیہ کے کام کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لیے مجبور کردیا ہے، اگر ہم غور کریں تو چار اہم ادارے ہیں جن کی پشت پناہی یا فرائض کی انجام دہی میں ناکامی اور کوتاہی کو ہجومی تشدد کے واقعات میں ہونے والی کثرت کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔
سب سے اہم ادارہ سیاسی جماعتیں اور ان کے گودی میڈیا ہیں۔ ملک میں بڑھتی فرقہ وارانہ اور نفرت آمیز سیاست سماج میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ کورونا وبا جیسے سخت ترین حالات میں بھی داڑھی ٹوپی کے خلاف سیاست و صحافت کے گٹھ جوڑ نے جو نفرت کا ماحول بنایا اس کی وجہ سے سبزی و پھل بیچنے والوں کو بھی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ضروری ہے کہ برسراقتدار سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے بیچ اشتہارات کے نام پر ہونے والے سودے و سمجھوتوں کو بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے اور میڈیا کو اخلاقی اصولوں کا پابند بنایا جائے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی تجویزات موجود ہوں۔
دوسرا اہم ادارہ پولیس و تفتیشی ایجنسیوں کا ہے، پولیس کی دستوری و قانونی ذمہ داری ہے کہ لنچنگ کرنے والوں خصوصاً گائے کے تحفظ کے نام پر بنی تنظیموں اور مورچوں پر نظر رکھے۔ خاص مذہب، ذات، نسل یا علاقے کے نام پر ہونے والی نفرت انگیز تقریریوں اور بیانوں پر سخت قانونی کارروائی کرے۔ نفرت آمیز سیاست کو پولیس کی خاموشی مزید طاقت اور ہمت دیتی ہے۔ پولیس ایک طرف نفرت پھیلانے والے سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے، اور ہجومی تشدد کے واقعہ کے بعد وہی پولیس اس معاملہ کی تفتیش بھی کرتی ہے، جب کہ پولیس نفرت پھیلانے والوں کو روکنے میں ناکام رہی جو کہ ایک جرم تھا۔ اس نفرت کے ماحول کی وجہ سے ہجومی تشدد ہوا اور اس کو بھی روکنے میں پولیس کی ناکامی ایک جرم کا درجہ رکھتی ہے۔ سب سے اہم ہے کہ ہجومی تشدد کے تمام حادثات کی تفتیش پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ایف آئی آر سے لے کر تفتیش تک پولیس کا رول بہت مشکوک ہوتا ہے۔
ہجومی تشدد کے واقعات میں پولیس عموماً نامعلوم افراد یا ہجوم کے خلاف ایف آئی آر درج کرتی ہے۔ ایف آئی آر میں ملزمین کے خلاف خاطر خواہ شناخت درج نہیں کی جاتی ہے، بلکہ اکثر واقعات میں تو ایف آئی آر بھی متاثر شخص کے خلاف ہی تحریر کردی جاتی ہے۔ پولیس تفتیش میں ملزمین کو تحفظ فراہم کرتی ہے، ایک کمزور ایف آئی آر پر ہونے والی جانبدارانہ تفتیش کیس کو مزید کمزور کردیتی ہے۔
ہجومی تشدد کے واقعات میں پولیس عموماً نامعلوم افراد یا ہجوم کے خلاف ایف آئی آر درج کرتی ہے۔ ایف آئی آر میں ملزمین کے خلاف خاطر خواہ شناخت درج نہیں کی جاتی ہے، بلکہ اکثر واقعات میں تو ایف آئی آر بھی متاثر شخص کے خلاف ہی تحریر کردی جاتی ہے۔ پولیس تفتیش میں ملزمین کو تحفظ فراہم کرتی ہے، ایک کمزور ایف آئی آر پر ہونے والی جانبدارانہ تفتیش کیس کو مزید کمزور کردیتی ہے۔
تیسرا اور سب سے اہم ادارہ ہوتا ہے عدالت کا، عدالت میں ہجومی تشدد کے شکار شخص کی طرف سے سرکاری وکیل ہی پیش ہوسکتا ہے۔ قانونی طور پرفیملی کا وکیل عدالت میں صرف اور صرف سرکاری وکیل کی مدد کرسکتا ہے، یعنی فیملی کا وکیل عدالت سے روبرو براہ راست کوئی بات نہیں کرسکتا ہے۔ سرکاری وکیل ملزمین کی ضمانت درخواست پر کوئی خاص مخالفت نہیں کرتے ہیں، ملزمین کا ضمانت پر رہا ہونا ہی متاثرین کے حوصلے پست کردیتا ہے۔
عدالت میں مقدموں کی سست رفتار سماعت بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ تفتیش کے دوران عدالت کی یہ ذمہ داری ہے کہ تفتیش پر نظر رکھے، تفتیشی افسر کس سمت میں اور کن ثبوتوں کی بنیاد پر اپنی رپورٹ تیار کررہاہے اور یہ تفتیش قانونی طریقے سے ایماندارانہ ہے، اس کو یقینی بنانا عدالت کا کام بھی ہے، لیکن ملزمین کو ضمانت ملنے کے بعد سالہا سال تک مقدمات کا زیرالتوا رہنا بھی انصاف کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
چوتھا اور سب سے اہم ادارہ سماج اور سماجی ادارے ہیں۔ سماجی مسائل کے حل کے لیے سماج کو سنجیدہ کوششیں کرنی ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈیا کا تاریخی فیصلہ17جولائی2018کو سنایا۔ فیصلے میں رہنما اصول تیار کیے گئے تھے۔ ایف آئی آر، تفتیش، متاثرین و ان کے اہل خانہ کو فوری تحفظ، تفتیش کی نگرانی اور ملزمین کی گرفتاری کو یقینی بنانا، صوبائی حکومت سی آرپی سی کی دفعہ-357اے کی روشنی میں لنچنگ کے متاثرین کے لیے معاوضے کی اسکیم تیار کرنے، مقدمات کی تیزرفتار عدالتوں میں روزانہ سنوائی، مقدمات کی سنوائی چھ ماہ کے اندر اندر مکمل کرنے، گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے احکامات پر مبنی تھے جن کی خلاف ورزی کی صورت میں پولیس آفیسر و ضلع انتظامیہ کے خلاف کوتاہی کرنے کے الزام میں چھ ماہ کے اندر ڈپارٹمینٹل انکوائری کرنے نیز ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے احکامات تھے لیکن ان کے اطلاق اور نفاذ کو لے کر سماجی اداروں نے نہ تو کوئی تحقیق کی اور نہ ہی کوشش جو کہ ہجومی تشدد کی روک تھام کے لیے ضروری تھی۔ سماجی مسائل پر غور و فکر کرنا اور اس کے سدباب کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہمارا سماجی فریضہ ہے ورنہ ہم ایک ایسے سماج کی طرف بڑھیں گے جہاں قانون کا نہیں بلکہ ہجوم کا انصاف ہوگا، جہاں نہ ثبوت ہوں گے اور نہ گواہ، صرف ایک افواہ یا الزام ہوگا اور ہجوم فیصلہ کرے گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)