تحریر:پردیپ کمار
جب بھی بالی ووڈ کے خوبصورت چہروں کی بات ہوتی ہے تو لوگ سب سے پہلے اداکارہ مدھوبالا کا نام لیتے ہیں۔
اور جیسے ہی آپ مدھوبالا کا نام لیتے ہیں، آپ کے ذہن میں اُن کی کئی تصویریں اُبھرتی ہیں۔ فلم ’محل‘ میں پراسراریت پیدا کرنے والی مدھوبالا ہوں یا ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ کی شہری خاتون۔ وہ ’ہاوڑہ پُل‘ کی شرابی رقاصہ ہوں یا پھر ’مغل اعظم‘ کی کنیز انارکلی جن کا مزاج کسی شہزادی سے کم نہیں تھا۔
دلربا، خوبصورت، دلکش اور تازگی سے بھرپور، جس کے چہرے سے نور ٹپک رہا ہو، یہ خوصیات سوچین تو شاید ہی آپ مدھوبالا کے علاوہ کسی اور چہرے کے بارے میں سوچ پائیں گے۔
مدھوبالا کی خوبصورتی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک فلمی میگزین ’مووی‘ نے سنہ 1990 میں بالی وڈ کی آل ٹائم گریٹسٹ ایکٹریسز کی مقبولیت کا سروے کرایا تھا جس میں مدھوبالا 58 فیصد لوگوں کے ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہیں، ان کے آس پاس کوئی اور نہیں پہنچ سکا کیونکہ اس سروے میں نرگس 13 فیصد ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہیں۔
مدھوبالا کو گزرے پانچ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن آج بھی وہ اپنی خوبصورتی اور نفاست سے بھرپور انداز کے لیے شہرت رکھتی ہیں۔ ان کے مداح انھیں جس عقیدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں اس کی دوسری مثال آج تک نہیں ملتی ہے۔
سب سے خوبصورت مدھوبالا
مدھوبالا کے ساتھ ہی اپنا ڈیبیو کرنے والے اداکار راج کپور نے ایک بار مدھوبالا کے بارے میں کہا تھا کہ لگتا ہے بھگوان نے انھیں اپنے ہاتھوں سے سنگ مرمر سے تراشا ہے۔ راج کپور کا یہ بیان ’بالی وڈ ٹاپ 20-سپر سٹارز آف انڈیا‘ میں درج ہے، جسے پینگوئن انڈیا نے شائع کیا اور بھائی چند پٹیل نے اسے ایڈٹ کیا۔
اسی کتاب کے مطابق شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے نے فلم انڈسٹری میں کام کرنے کے اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن جب انھوں نے مدھوبالا کو شوٹنگ کے دوران دیکھا تو انھیں لگا کہ ان کا دن خوشگوار ہو گیا ہے۔
شمی کپور نے اپنی سوانح عمری ’شمی کپور دی گیم چینجر‘ میں مدھوبالا کے لیے ایک پورا باب وقف کیا ہے جس کا عنوان ’فیل میڈلی ان لو ود مدھوبالا‘ ہے۔
اس میں شمی کپور کا کہنا ہے کہ ’میں جانتا تھا کہ مدھو کسی اور سے پیار کرتی ہیں، لیکن اس کے بعد بھی میں یہ ماننا چاہتا ہوں کہ میں ان سے پاگلوں کی طرح پیار کرنے لگا تھا۔ اس کے لیے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا، کیونکہ میں نے کبھی ان سے زیادہ خوبصورت عورت نہیں دیکھی۔‘
سنہ 2011 میں شائع ہونے والی اس خود نوشت میں شمی کپور نے کہا تھا کہ آج چھ دہائیوں بعد بھی جب وہ مدھوبالا کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کا دل دھڑکنا بھول جاتا ہے۔ مدھوبالا کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ شمی کپور اپنی پہلی فلم ’ریل کا ڈبہ‘ کی شوٹنگ کے دوران مدھوبالا کو دیکھتے ہی اپنے ڈائیلاگ بھول جاتے تھے۔
صرف 36 سال کی عمر، اس میں بھی اپنی زندگی کے آخری نو سال اپنے گھر میں قید تنہائی پر مجبور رہنے اور صرف 66 فلمیں کرنے کے باوجود مدھوبالا نے وہ سب کچھ حاصل کیا، جس سے وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔
پیدائش کے وقت ہی مدھوبالا کے دل میں سوراخ تھا اور ڈاکٹروں کے مطابق انھیں اس بیماری میں کافی آرام کی ضرورت تھی لیکن مدھوبالا کے والد نے انھیں ایک ایسی دنیا میں دھکیل دیا جہاں انھیں مسلسل کام کرنا پڑتا تھا۔
درحقیقت، مدھوبالا نہ صرف اپنے والدین بلکہ 11 بہن بھائیوں کے خاندان کی واحد روزی روٹی کمانے والی تھیں۔ والد لاہور میں امپیریل ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، نوکری چھوڑ کر دہلی آ گئے اور پھر دہلی سے بمبئی کے لیے رخت سفر باندھا اور امید یہ تھی کہ خوبصورت مدھوبالا کو فلموں میں کام ملے گا۔
صرف چھ سال کی عمر سے ہی مدھوبالا نے مایا نگری میں قدم جما لیے تھے۔
اس کام نے انھیں کس قدر متاثر کیا تھا اس کی جھلک سنہ 1957 میں فلم فیئر میگزین کی اس خصوصی سیریز سے ملتی ہے جس میں میگزین نے اس دور کے سپر سٹارز سے اپنے بارے میں کچھ لکھنے کو کہا تھا۔ نرگس، مینا کماری، نوتن، راج کپور، دلیپ کمار، دیو آنند، کشور کمار، اشوک کمار سبھی نے اس میں اپنے بارے میں لکھا تھا۔
اپنے بارے میں مدھوبالا
اس سیریز میں مدھوبالا نے اپنے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے انکار کرتے ہوئے معافی مانگی تھی۔ معافی نامے میں مدھوبالا نے لکھا: ’میں خود کو کھو چکی ہوں، ایسی صورتحال میں اپنے بارے میں کیا لکھوں، مجھے لگتا ہے کہ آپ نے مجھے اس کے بارے میں میں لکھنے کو کہا ہے جسے میں نہیں جانتی۔‘
’وقت نے مجھے اپنے آپ سے ملنے کا وقت نہیں دیا، جب میں پانچ سال کی تھی تو کسی نے میرے بارے میں نہیں پوچھا اور میں اس بھول بھلیاں میں آ گئی۔ فلم انڈسٹری نے مجھے پہلا سبق دیا تھا کہ آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بھولنا ہوتا ہے، سب کچھ، خود کو بھی، تو ہی آپ اداکار بن پاتے ہیں، ایسے میں پھر میں اپنے بارے میں کیا لکھوں؟‘
خدیجہ اکبر نے مدھوبالا کی فلمی زندگی پر ’آئی وانٹ ٹو لیو: دی سٹوری آف مدھوبالا‘ لکھی ہے۔ اس کتاب سے سرسری گزرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مدھوبالا کی خوبصورتی نے اداکاری کے متعلق ان کے نظم و ضبط اور سیکھنے کے جذبے کو کبھی بھی کم نہیں ہونے دیا۔
مدھوبالا اس وقت فلمی دنیا کی واحد فنکارہ تھیں جو وقت سے پہلے سیٹ پر موجود رہتی تھیں۔ اگرچہ صحت کی وجہ سے وہ رات کو شوٹنگ نہیں کیا کرتی تھیں اور اپنے پورے کریئر میں انھوں نے کبھی آؤٹ ڈور شوٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اس کے باوجود مدھوبالا اپنے وقت کی ٹاپ اداکاراؤں میں سے ایک رہیں۔
اگر آپ کام کے تئیں ان کے کمال کی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو فلم ’مغل اعظم‘ کے محبت کے وہ مناظر دیکھیں جس میں شہزادہ سلیم انارکلی کو مور کے پروں سے چھیڑتے ہیں۔ اس سین کا شمار انڈین سنیما کی دنیا کے سب سے زیادہ رومانوی مناظر میں ہوتا ہے۔ یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان مناظر کے علاوہ مغل اعظم کے تمام عشقیہ مناظر کے دوران دلیپ کمار اور مدھوبالا کے درمیان بات چیت تک بند تھی۔
دلیپ کمار، مدھوبالا کی محبت کی کہانی
ان دونوں اداکاروں کو کبھی انڈین فلمی تاریخ کی سب سے رومانوی جوڑی سمجھا جاتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت کے اسیر تھے۔ مدھوبالا پہلی بار دلیپ کمار کے ساتھ سنہ 1955 میں فلم ’انسانیت‘ کے پریمیئر کے دوران عوامی طور پر نظر آئیں۔ یہ پہلا اور واحد موقع تھا جب دلیپ کمار اور مدھوبالا کو ایک ساتھ عوامی سطح پر دیکھا گیا۔
اس موقع پر کوریج کرنے والے صحافی کے رازدان نے بعد میں لکھا کہ مدھوبالا اس سے زیادہ خوش کبھی نظر نہیں آئیں۔ راکسی سنیما میں منعقد ہونے والے اس پریمیئر میں مدھوبالا کو ہمیشہ دلیپ کمار کا بازو پکڑے دیکھا گیا۔
شمی کپور نے یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح دلیپ کمار ممبئی سے پونے تک صرف مدھوبالا کو دیکھنے کے لیے گاڑی چلا کر آیا کرتے تھے اور دور کھڑے مدھوبالا کو دیکھا کرتے تھے۔
تاہم، ایک عام خیال یہ ہے کہ مدھو بالا کے والد نہیں چاہتے تھے کہ مدھوبالا اور دلیپ کمار کی شادی ہو۔ اس بارے میں فلمی رسالوں میں بہت کچھ شائع ہو چکا ہے۔ لیکن دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو’ میں اس کے برعکس بات بیان کی ہے۔
مدھوبالا اور دلیپ کیسے الگ ہوئے؟
انھوں نے لکھا: ’جو کہا جاتا ہے اس کے برعکس، مدھو کے والد ہماری شادی کے خلاف نہیں تھے۔ ان کی اپنی پروڈکشن کمپنی تھی اور وہ بہت خوش تھے کہ ایک ہی گھر میں دو بڑے سٹار موجود ہوں گے۔ وہ چاہتے تھے کہ دلیپ کمار اور مدھوبالا اپنے کریئر کے اختتام تک ایک دوسرے کی بانھوں میں بانھیں ڈالے ان کی فلموں میں دوگانے گاتے نظر آئيں۔‘
پھر کیا ہوا، جس کی وجہ سے بالی وڈ کی مشہور ترین محبت کی کہانی شادی تک نہ پہنچ سکی۔ دلیپ کمار نے اس کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ‘جب مجھے مدھو سے ان کے والد کے منصوبوں کے بارے میں معلوم ہوا تو میری ان سے کئی بار بات چیت ہوئی جس میں میں نے دونوں کو بتایا کہ میرے کام کرنے کا اپنا طریقہ ہے، میں اپنا کام خود کرتا ہوں۔ میں پروجیکٹ کا انتخاب کرتا ہوں اور اگر اس میں میرا اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی ہو تب بھی میں تساہلی نہیں دکھا سکتا۔
دلیپ کمار کے مطابق مدھوبالا کے والد آیت اللہ خان کو ان کی یہ بات پسند نہیں آئی اور وہ دلیپ کمار کو ضدی اور اڑیل سمجھنے لگے۔ دلیپ کے مطابق مدھوبالا کا جھکاؤ ہمیشہ اپنے والد کی طرف تھا اور وہ کہتی رہیں کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ دلیپ کمار شادی کے لیے تیار نہیں تھے۔ سنہ 1956 میں ‘ڈھاکے کی ململ’ فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک دن انھوں نے مدھوبالا سے کہا کہ قاضی انتظار کر رہے ہیں، چلو آج میرے گھر شادی کر لیتے ہیں۔ لیکن مدھو بالا ان کی بات سُن کر رونے لگیں۔ دلیپ کمار کہتے رہے کہ ’اگر آج تم نہیں گئی تو میں تمہارے پاس واپس نہیں آؤں گا، کبھی نہیں آؤں گا۔‘
اس کے بعد دلیپ کمار مدھوبالا کے پاس واپس نہیں آئے۔ کیونکہ دونوں کے درمیان سنہ 1957 میں ایسا جھگڑا ہوا کہ اس کے شعلے نے اس محبت کو بے وقت ختم کر دیا۔
ہدایتکار بی آر چوپڑا نے سنہ 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نیا دور‘ کے لیے دلیپ کمار اور مدھوبالا کو سائن کیا۔ اس فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ پونے اور بھوپال میں ہونی تھی لیکن مدھوبالا کے والد نے مدھوبالا کو بھوپال بھیجنے سے انکار کر دیا۔ تب تک بی آر چوپڑا اپنی فلم کی کافی شوٹنگ کر چکے تھے۔
پیشے سے وکیل بی آر چوپڑا اس معاملے کو عدالت میں لے گئے اور اس دوران انھوں نے مدھوبالا کے بجائے وجینتی مالا کو سائن کر لیا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران دلیپ کمار نے عدالت میں کہا کہ وہ مدھوبالا سے محبت کرتے ہیں اور مرتے دم تک محبت کرتے رہیں گے۔ لیکن انھوں نے اپنا بیان بی آر چوپڑا کے حق میں دیا۔
دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے مفاہمت کے لیے بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس سارے معاملے میں بی آر چوپڑا کا موقف درست تھا۔ اس کے بعد مدھوبالا کو یقین ہو گیا کہ دلیپ کمار کبھی ان کے پاس واپس نہیں آئیں گے۔
کشور کمار سے شادی
اس علیحدگی کی وجہ سے مدھوبالا نے شادی کرنے کا ذہن بنا لیا ہو گا۔ لیکن وہ ایک دن کشور کمار سے شادی کر لیں گی، اس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔ لیکن جس وقت مدھوبالا اور دلیپ کمار کی راہیں جدا ہونے لگیں، اسی وقت کشور کمار کو پہلی بیوی روما دیوی سے طلاق ہو گئی۔ اور ادھر کشور کمار اور مدھوبالا دونوں کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔
اس کی وجہ سے دونوں کے درمیان کشش ضرور رہی ہو گی اور 1960 میں کشور کمار اور مدھوبالا کی شادی ہو گئی۔ کشور کمار سے شادی کے فیصلے نے مدھوبالا کو دلیپ کمار سے علیحدہ ہونے کے مقابلے میں کہیں زیادہ صدمہ پہنچایا۔
کشور کمار کو مدھوبالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ مدھوبالا کو علاج کے لیے لندن لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ اب زیادہ سے زیادہ مدھوبالا صرف ایک سے دو سال تک زندہ رہ سکیں گی۔
اس کے بعد جب کشور کمار واپس آئے تو انھوں نے مدھوبالا کو اپنے والد اور بہنوں کے پاس چھوڑ دیا اور کہا کہ وہ اتنے مصروف ہیں کہ وہ مدھوبالا کی دیکھ بھال نہیں کر پائیں گے۔ وہ مدھوبالا سے ملنے آتے رہے، لیکن تین چار ماہ کے وقفے سے، یعنی جب مدھوبالا کو کشور کمار کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، تب کشور کمار کے پاس ان کے لیے وقت نہیں تھا۔
ایسے میں دل کی بیماری بڑھتی رہی لیکن مدھوبالا کے اندر جینے کی خواہش بہت تھی، اس لیے ڈاکٹروں کے سامنے ہاتھ اٹھانے کے بعد وہ نو سال تک زندہ رہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی کے آخری نو سال بہت تنہائی میں گزارے۔ اس دوران ان کا حال جاننے کے لیے بہت کم لوگ ان کے گھر جاتے تھے۔ اس میں دلیپ کمار کا خاندان بھی شامل تھا۔
اگرچہ مدھوبالا ’مغل اعظم‘ کی ریلیز کے فوراً بعد شدید بیمار ہو گئیں، لیکن ان کے کام والی فلمیں اگلے چار سال تک ریلیز ہوتی رہیں۔ لیکن اس بارے میں بھی کم قیاس آرائیاں نہیں ہوئیں کہ مدھوبالا آخری دنوں میں کیسی نظر آ رہی تھیں۔
بالی ووڈ ٹاپ 20 – سپر سٹارز آف انڈیا نے مدھوبالا کے آخری دنوں کی ایک جھلک پیش کی۔ دلیپ کمار کی بہن سعیدہ خان کے مطابق ان کی موت سے ایک دن قبل ان کی مدھوبالا سے ملاقات ہوئی تھی اور اس وقت تک ان کی خوبصورتی میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی تھی۔
اگرچہ طویل علالت کی وجہ سے وہ پژمردہ نظر آتی تھیں لیکن ان کے چہرے کے نور میں کمی نہیں آئی تھی۔
لیکن شاید بیماری نے مدھوبالا کی خود اعتمادی کو کمزور کر دیا تھا، تبھی انھوں نے اپنے آخری دنوں میں میک اپ کرنا شروع کر دیا تھا۔ سپر سٹارز آف انڈیا میں فلم ڈائریکٹر شکتی سامنتا نے بتایا کہ وہ بھی مدھوبالا سے ان کی موت سے ایک دن پہلے ملے تھے اور وہ بہت زیادہ میک اپ میں تھیں حالانکہ وہ اپنے پورے فلمی کیریئر میں بہت کم میک اپ کرنے کے لیے مشہور تھیں۔
ان کی خوبصورتی کا کبھی جس بالی وڈ میں ڈنکا بجتا تھا، اس دنیا نے انھیں بھلا دیا، لیکن وہ انڈین سنیما شائقین کے دلوں پر راج کرتی رہیں۔
انڈین پوسٹل سروس نے 18 مارچ 2008 کو مدھوبالا کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا، اس موقع پر فلم اداکار منوج کمار نے کہا تھا کہ مدھوبالا ملک کا چہرہ تھیں۔ ایک صدی میں ایک ہی مدھوبالا ہو سکتی ہے۔ میں جب بھی ان کو دیکھتا، دل میں غزلیں گونجنے لگتی تھیں۔
واقعی اب کوئی دوسری مدھوبالا نہیں ہو سکتی، جس کی محض تصویر دیکھ کر ہی دلوں میں جذبات کی تاریں جھنجھنا اٹھیں۔ ہمارے بھی اور آپ کے بھی۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)