تحریر: محمد خالد اعظمی
(شبلی نیشنل کالج ، اعظم گڑھ)
پورے بر صغیر میں تعلیم کو عام کرنے اور عوام کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں مدارس و مکاتب کی اہمیت مسلم ہے۔عوامی سطح پر تعلیم و خواندگی کی ترسیل، مسلم ثقافت کی ترویج، تہذیب و تمدن کی آبیاری اور قوم و ملت کو در پیش سیاسی و سماجی مسائل اور ان کے ممکنہ حل کی جو مثالیں اسلامی مدارس نے پیش کی ہیں وہ محتاج بیان نہیں ۔ مدارس نے برصغیر کے تقریباً ہر علاقے میں بالکل مفت یا معمولی فیس کے ساتھ اعلیٰ معیاری تعلیم کا نظم کرنے اور مسلمانوں کی مخصوص اسلامی شناخت کے قیام و استحکام میں جو کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں اس کا ہر خاص وعام معترف ہے – مروجہ اردو ذریعۂ تعلیم کی وجہ سے مدارس نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت اور اسے ایک زندہ زبان کی حیثیت سے قائم رکھنے میں بھی بھر پور کردار ادا کیاہے۔ موجودہ وقت میں اردو زبان اگر ملک میں زندہ اور رائج ہے تو اس میں مدارس کے کردار اور انکی اہمیت سے صرف نظر ممکن نہیں ۔ ہمارے اکابرین کی کثیر تعداد نے تعلیم کو عبادت اور کار ثواب سمجھتے ہوئے بنا کوئی خاص اجرت لئے، نان شبینہ کی نہایت قلیل مقدار کے ساتھ درس و تدریس کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنائے رکھا اور مغلیہ حکومت کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں کا شیرازہ بکھرنے سے بچائے رکھنے کیلئے ان مدراس اور ان سے منسلک اکابرین کی قربانیاں بیشک عام مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں تمام مدارس ،مکاتب و دیگر تعلیم گاہیں حکومتی امداد اور امراء کے ذریعہ وقف کی گئی جائدادوں کی آمدنی سے چلتی تھیں ۔ تعلیم گاہوں کی تعمیر و ترقی کے ساتھ طالب علم اور استاد کے سبھی اخراجات امراء کی انہیں وقف شدہ جائیدادوں اور حکومت کی مالی اعانت سے پورے ہوتے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا دور حکومت قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم سے لیکر طب ، پارچہ بانی ،ریاضی ،سائنس ،فلسفہ، و تعمیرات کے علم اور متعلقہ ماہرین فنون کیلئے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ لیکن برٹش دور حکومت میں مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کے تمام ذرائع و مواقع کی حوصلہ شکنی شروع ہوگئی ، انکے تعلیمی اداروں کو مختلف الزامات کے تحت بند کردیا گیا یا انکی سرکاری امداد روک دی گئی ، اوقاف کی جائدادوں پر خود حکومت نے قبضہ کر لیا اور یوں مسلمانوں کے علوم وفنون اور اداروں کی تنزلی کے ساتھ ان کی صنعت و حرفت اور ذرائع پیداوار کی ترقی کو بھی مسدود کردیا گیا۔ اس پر آشوب دور میں مسلمانوں نے بالکل نئی منصوبہ بندی کے ساتھ از سر نو مدارس و مکاتب کی شکل میں تعلیم کا نیا نظام شروع کیا اور بغیر کسی حکومتی مدد کے صرف اپنی ذکات ،صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے دم پر ایک شاندار تعلیمی نظام مدارس کے مربوط نٹ ورک کے ذریعہ پورے ملک میں قائم کر دیا ۔
اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ برٹش راج سے آزادی کے بعد سے ہی قومی سطح کے معاملات و مسائل فرقہ واریت کی عینک سے دیکھے جانے لگے ۔ ہر سطح پر ایسے حکومتی اور غیر حکومتی عناصر سر گرم ہو گئے جو وطن عزیز کے اندر لگاتار مسلمانوں کے لئے مسائل کھڑے کرتے ہیں اور ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے وہ مسلمانوں کے تمام تعلیمی اداروں اور درسگاہوں کی وسعت و ترقی اور ان کے ذریعہ جاری علمی تحریک کو ہر حال میں غیر فعال اور منجمد کر دینا چاہتے ہیں۔ مسلمان اپنے بیشتر تعلیمی اداروں کا نظام اپنی ذکات، صدقات و دیگر عطیات سے بحسن و خوبی چلا رہے ہیں لیکن حکومت اور گودی میڈیا ان اداروں کے ذرائع آمدنی اور مالیات کی فراہمی پر عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور انتظامی شفافیت کے نام پر مدارس اسلامیہ کے پورے نظام کو کمزور اور غیر فعال کر دینے کے درپہ ہیں۔ مالیات کی سرکاری آڈٹ کی نام پر غیر ضروری اعتراضات ، آمدنی کے تمام تر ذرائع کی چھان بین ، غیر ممالک سے ملنے والی امداد پر روک ،اور ذکات و دیگر ذرائع سے روپیہ جمع کرنے پر حکومتی ایجنسیوں اور اداروں کی مستقل نظر رہنے سے مدارس کو مالیات کی فراہمی لگاتار متاثر ہو رہی ہے اور اگر حکومتی حالات ایسے ہی رہے تو ان مدارس کو اپنے تحفظ اور بقا کے لئے مالیات کے متبادل ذرائع کی تلاش لازماً کرنی پڑے گی، کیونکہ موجودہ وقت میں آمدنی کی قلت ہی مدارس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
پچھلے دو سال سے کووڈ- 19 کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران سفر کی پابندی کے سبب بیشتر مدارس اپنے حصے کی ذکات و عطیات کی رقم وصول کرنے میں ناکام رہے اور نتیجتاً یہ مدارس شدید مالی بحران کا شکار ہو گئے ، بیشتر چھوٹے اور درمیانی درجے کے مدارس کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ۔ اس وبائی بحران نے جہاں ایک طرف حکومتوں کی عوامی خدمات اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ، وہیں دینی مدارس کو بھی اپنی مالیات کے استحکام کے لئے کچھ نئے اور غیر روایتی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ موجودہ حالات کے مدنظر مدارس کو اپنے آپ کو خود کفیل بنانے اور زکات و صدقات پر انحصار کو ممکنہ حد تک کم کرنے کے لئے ایک ٹھوس اور دیرپا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔پچھلے دو سال سے کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے زکات و عطیات کی وصولیابی نہیں ہو سکی اور زیادہ تر مدارس کے پاس اپنے اساتذہ کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں ، کہیں آدھی تنخواہ دی جارہی ہے تو کہیں اس سے بھی محرومی ہے ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ارباب مدارس نے اپنے اداروں کی آمدنی اور کفالت کیلئے ذکات و صدقات اور عوامی چندہ کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل اور مستحکم ذریعہ اپنانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں اور نہ انکے پاس اس سمت میں جانے کا کوئی لائحہ عمل موجود ہے ۔ اس نازک حالت میں اہل مدارس کو تعلیمی فیس پر مبنی نظام کو رائج کرنے اور مدارس کے تعلیمی اخراجات بشمول اساتذہ کی تنخواہ فیس کے ذریعہ پورا کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایک وقت تھا کہ غریب اور امیر سب کومفت تعلیم دینا بر بنائے ضرورت تھا، نیز عوام کو تعلیم کی طرف راغب کرنے لئے بھی یہ ایک ضروری قدم تصور کیا جاتا تھا، لیکن پہلے کے مقابلے اب پورے ملک میں مسلمانوں کی آمدنی میں اضافہ اور ان کے متوسط طبقہ کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے ۔ ان کی اوسط آمدنی اور کل فیملی بجٹ میں تعلیم پر ہونے والے خرچ میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔مسلمانوں کا مڈل کلاس طبقہ اس وقت اچھے اور مہنگے اسکولوں میں زیادہ فیس دےکر اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہے یا اس کے لئے کوشاں ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مدارس میں اپنے بچوں کو پڑھانے کیلئے تعلیمی فیس کا متحمل نہ ہو سکے ۔ اس پر آشوب اور مالی مشکلات کے دور میں بھی پتہ نہیں کیا دقّت ہے کہ مدارس کے منتظمین تعلیمی فیس متعارف کرانے میں غیر معمولی تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور اس کے بجائے زکوٰۃ و صدقات پر مبنی نظام سے ہی چمٹے رہنا چاہتے ہیں ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی زکوٰۃ اور صدقات کا غیر معمولی حصہ مدارس میں پہنچتا ہے اور اس کا بھی بڑا حصہ مدارس میں غیر ضروری تعمیرات اور ناظم اعلی کے ذاتی عیش و آرام پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس وقت شمالی ہندوستان کے زیادہ تر مدارس میں بنیادی ڈھانچہ بشمول ضرورت کے مطابق عمارت اور طلبہ کی رہائشگاہ وغیرہ موجود ہے اور صرف تنخواہ اور روزمرہ کے دیگر ضروری اخراجات کے لئے آمدنی کا مستقل ذریعہ ہونا چاہئے جو فیس کی شکل میں پورا ہو سکتا ہے۔ اہل مدارس کو اس ضمن میں ایک مربوط اور مرحلہ وار لائحہ عمل طے کرنا چاہئے ۔ یہاں پر یہ منشاء قطعی نہیں ہے کہ مدارس ذکات اکٹھا کرنا بالکل بند کردیں بلکہ اس پر بالکلیہ انحصار کو کم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ مدارس میں غریب اور غیر مستطیع طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہوتی ہے اور انکی کفالت مدرسہ کے ذمہ ہوتی ہے ۔ ان طلبہ کے اخراجات پورے کرنےکیلئے ذکات ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن اس کو بالکل عام کر دینا اور ہر امیر غریب ، مستحق غیر مستحق ، صاحب نصاب ، غیر صاحب نصاب ہر طرح کے طلبہ کو صرف ذکات کے پیسے سے تعلیم دینا بالکل مناسب نہیں ہے کیونکہ ذکات و صدقات کا پیسہ ان لوگوں پر خرچ ہو رہا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔ مدارس میں فیس کا ایک لچکدار اور طلبہ کی مالی حیثیت کے مطابق نظام ترتیب دیا جا سکتا ہے جس میں غیر مستطیع طلبہ یا ان کے سرپرستوں سے ان کی مالی حیثیت اور ماہانہ آمدنی کا اقرار نامہ لیکر ان کی فیس یا دیگر اخراجات ذکات کی آمدنی سے ادا کئے جا سکتے ہیں۔
مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی زیادہ سے زیادہ پچیس فیصد تعداد ایسی ہو سکتی ہے جو تعلیمی فیس ادا کرنے سے قاصر ہو بقیہ پچھتر فیصد طلبہ اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگر مدرسہ مکمل یتیم خانہ نہیں ہے اور ڈھوندھ ڈھونڈھ کر صرف غریب، یتیم اور نادار طلبہ نہیں اکٹھے کئے گئے ہیں تو مدرسہ میں پڑھنے والے مستطیع اور غیر مستطیع کا یہی تناسب ہوتا ہے، کسی بھی غیر منافع بخش تعلیمی ادارے میں پچھتر فیصد طلبہ اپنے تعلیمی اخراجات ادا کردیں تو بقیہ پچیس فیصد کے اخراجات اسی مد سے بہ آسانی پورے ہو سکتے ہیں، یا ذکات پر مدرسہ کا انحصار گھٹ کر ایک چوتھائی ہو سکتا ہے- اسکے علاوہ مفلس و نادار یا غیر مستطیع طلبہ کے لئے علاقے کے متمول اور خوشحال افراد سے کفالت کا مربوط نظام بن بھی متعارف کرایا جا سکتاہے۔ ایک اوسط درجہ کے مدرسہ میں اگر پانچ سو طالب علم زیر تعلیم ہیں تو وہاں زیادہ سے زیادہ دس اساتذہ پر مشتمل اسٹاف ہوگا ( پچاس طالب علم پر ایک استاد) اور اگر اوسط تنخواہ دس ہزار روپئے ہے تو ہر مہینہ اساتذہ کی تنخواہ پر ایک لاکھ روپئے کا صرفہ متوقع ہے ۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ پانچ سو میں سے چار سو طلبہ فیس ادا کرسکتے ہیں تو ہر طالب علم سے ماہانہ تعلیمی فیس ڈھائی سو روپیہ وصول کر اساتذہ کی تنخواہ کا انتظام ہو سکتا ہے- یہ ایک خیالی اور رف حساب ہے لیکن اس سے فیس یا طلبہ سے ماہانہ وصول کی جانے والی رقم کا تخمینہ لگا کر ہم زکات کی وصولی اور اس پر مدرسے کے انحصار کو کم کر سکتے ہیں- ملک کے زیادہ تر بڑے مدارس حکومت سے منظور شدہ اعلی تعلیمی ادارہ کی شکل میں کام کرتے ہیں اور ساتھ ہی ملک کے دیگر اعلی تعلیمی اداروں سے ان کا الحاق بھی ہے، بعض مدارس کا معیار تعلیمُ اتنا بلند اور معیاری ہے کہ وہاں سے فارغ التحصیل طلبہ کی بڑی تعداد ملک کی اعلی یونیورسٹیز اور طبی کالجز جیسے علیگڑھ، جامعہ ملیہ، جامعہ ہمدرد ، جے این یو ،دہلی ، لکھنو ، حیدرآباد وغیرہ میں آسانی سے داخلہ حاصل کر لیتی ہے، اور آگے کی اعلی تعلیم اور تخصص کا حصول ان کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)