سیاست کوئی موسمی پھل نہیں ہے یہ 24x7x30x360 یعنی روزانہ چوبیس گھنٹے ، ہفتہ کے ساتوں دن مہینہ کے تیسوں دن اور سال کے ٣٦٥ دن کا عمل ہے یعنی سیاست مداومت چاہتی ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ تو نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو اس میدان میں حاشیہ پر رکھا اور کچھ یہ اپنی ذہنی ساخت کی وجہ سے صرف انتخابات ؛ عام انتخابات یا اسمبلی انتخابات یا کارپوریشن کے انتخابات کے وقت متحرک ہوتے ہیں اور نہ صرف متحرک ہوتے ہیں بلکہ مشروم کی طرح اگ آتے ہیں اور انتخابات کا موسم ختم ہوتے ہی گہری نیند سو جاتے ہیں۔ اس کے بعد پانچ سال بعد ہی خواب خرگوش سے بیدار ہوتے ہیں ۔
مہنگائی ، بے روزگاری ، نظم و نسق کی بگڑتی صورتحال ،اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، خواتین کی عصمت دری اور ہر شعبے میں بدعنوانی (کرپشن) جیسے مسائل مسلمانوں کو بے چین کیوں نہیں کرتے ! یہ کیوں صرف مسلمانوں کے مخصوص مسائل پر بولتے ہیں اور وہ بھی بہت کم اور بغیر ڈیٹا اعدادوشمار اور حوالہ جات کے ! اور یہ بھی کہ جب یہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی جانب سے اٹھائی گئی آواز سرد خانے کی نذر ہو جاتی ہے نہ متعلقہ محکمہ نوٹس لیتا ہے اور نہ مین اسٹریم میڈیا قابلِ اعتناء سمجھتا ہے تو پھر یہ کیوں نہیں انصاف پسند سیکولر مزاج ہندو برادران وطن کے ساتھ مل کر ہر چھوٹے بڑے شہر میں سیٹیزن فورم تشکیل دیتے ہیں تاکہ ان کی باتوں اور ان کے مسائل پر اقلیت نوازی کی چھاپ نہ لگے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ جس کے پاس جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ اسی کے لئے تگ و دو کرتا ہے ۔ مسلمانوں کی بنیادی ضرورت امن سیکورٹی ہے اسی لیے وہ اسی ایشو کے لئے سامنے آتے ہیں ۔ جس کا فقدان یا کمی ہو اس کے لئے جدوجہد قابلِ ستائش ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم عام لوگوں کے مسائل میں دلچسپی نہ لیں ان کی لڑائی میں شریک نہ ہوں۔
بین السطور پڑھنے والے ایک عرصہ گزرنے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کے خلاف لوک پال بل کے لئے انا ہزارے کی ملک گیر تحریک کو آر ایس ایس کی پشت پناہی حاصل تھی اگر یہ صحیح بھی ہے تو یہ بات کئی سال بعد سامنے آئی، شروع میں ایسا کوئی عندیہ بھی نہیں تھا کہ اس تحریک کا پس پردہ ہدف کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنا تھا۔ اس کے باوجود کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی اینٹی کرپشن موومنٹ کے لئے جوش و خروش تھا ۔ ظاہر ہے نہیں ۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان مین اسٹریم ایشوز عوامی مسائل میں شاذونادر ہی حصہ لیتے ہیں۔
اس تحریک کے بعد ہی مخصوص عناصر اور تنظیم نے مسلمانوں کے خلاف ایسے ایسے بیانیے چلائے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کے نام لینے، اور ان کے مسائل پر بولنے سے کترانے لگیں۔ ایسا ماحول بنا دیا اور بھرم پھیلا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اسٹیج پر بیٹھانے سے اکثریت ناراض ہو جائے گی اور جب اکثریت ناراض ہوگی تو ظاہر ہے اکثریت کے ووٹ سے وہ لیڈر اور پارٹی محروم رہ جائے گی۔ اس بھرم کے علاوہ ان پارٹیوں کے لیڈروں نے یہ بھی سوچا کہ مسلمان بی جے پی کا ہو نہیں سکتا تو ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن وکلپ نہیں ہے وہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کے لئے مجبور ہے۔
اویسی ہوں یا اکھیلش ، ان دونوں کے پاس ووٹ بٹورنے کا ایک فارمولہ ہے کانگریس کے خلاف باتیں کرنا۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں!
کانگریس کی غلطیاں اپنی جگہ ۔۔۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن صحتمند جمہوریت کے لئے مضبوط اپوزیشن لازم ہے اور اس کی صلاحیت کانگریس کے علاوہ شاید ہی کسی پارٹی میں ہو ۔ مرکزی سطح پر وہی ایک پارٹی ہے جو مقتدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے ، حکومت کی غلط پالیسیوں پر اسے مدلل گھیرتی ہے۔ اسی لئے برسر اقتدار جماعت نے ساری توانائی کانگریس اور راہل گاندھی کی شبیہ خراب کرنے میں صرف کی اس لئے کہ اسے معلوم ہے کانگریس ہی حقیقی معنوں میں کل ہند سطح کی پارٹی ہے اور اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد بھی اس کی عوامی مقبولیت ہے جس کا ثبوت بھارت جوڑو یاترا میں لوگوں کا جوق در جوق شامل ہونا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی پارٹی نہیں ہے۔ کیڈر بیسڈ کل ہند سطح کی کمیونسٹ پارٹی کا بھی تقریباً زوال ہو چکا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم نہیں ہے ۔ یہ فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کرنے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کہ بحال کرنے اور لوگوں میں انسانیت کا دیپ جلانے کی ایک کوشش ہے ۔ اسی لئے پارٹی وابستگی کے بغیر بھی بہت سارے لوگ شریک ہو رہے ہیں۔
ہماری شرکت اس یاترا میں اور اسی طرح ملک کی تعمیر وترقی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہم کے لئے دوسری تحریکوں میں اس لئے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی ملک کے شہری ہیں یہاں کی تعمیر وترقی اور تخریب و تنزلی سے ہم بھی یکساں طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور امن عامہ کا فقدان ہو یا. تحریر: مسعودجاوید