عبدالسلام عاصم
دہلی کے رُخ پر ممتا بنرجی نے معرفت کا دوسرا قدم اٹھا دیا ہے ۔ ان کا پہلا سیاسی قدم آزادانہ قدم نہیں تھا۔ اُس وقت وہ کانگریس کی رہنماوں میں سے ایک تھیں۔ترنمول کانگریس کی تشکیل اور این ڈی اے میںساجھیداری نے اُن پر سیاست کے ہر اُس مفہوم کو واضح کر دیا جو کانگریس کی اتباع میں وہ حاصل نہیںکر سکتی تھیں۔آنے والے کل میں اگر وہ ترنمول کو اصل کانگریس کے طور پر دیکھ رہی ہیں تو یہ ہر گز دیوانے کا خواب نہیں۔
رواں مہینے کے شروع ہی میں محترمہ بنرجی کے تیور نے واضح کر دیا تھا کہ وہ قومی سیاست کی بے سمتی کو درست کرنے کے رُخ پر ٹھوس قدم اٹھانے کا مصمم ارادہ کر چکی ہیں۔بہ الفاظ دیگر مرکز میں موجودہ حکمراں پارٹی کوآئندہ عام انتخابات میں اپوزیشن کی بدستور عدم موجودگی کی سہولت حاصل نہیں رہے گی۔ سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی نے اصل حریف سے زیادہ کانگریس کو نگلنے میں مصروف رہ کراپنا ہاضمہ خراب کر لیا ہے۔ سابقہ عام اور یوپی انتخابات کے بعداب اُن میں اپنی بقا سے آگے سوچنے کی کوئی اہلیت نہیں رہ گئی ہے۔
قومی سیاست کا نیا منظرنامہ کیسا ہو گا اس کی دوٹوک عکاسی تو بہر حال ممکن نہیںلیکن اتنا طے ہے کہ ممتا بنر جی کے صلاح کاروں میں ایسی سوچ کے لوگ کم یا بے اثر ہیں جن کی وجہ سے جیوتی باسو وزیر اعظم نہیں بن پائے اور قومی سیاست ایک ایسے تجربے سے محروم رہ گئی جو سرگرم جمہوری سیاست کیلئے ناگزیر ہے۔ممتا بنرجی کا بہر حال موازنہ کسی مارکسی رہنما سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دیدی نے جس طرح تنہا قوی یلغار کامحدود علاقائی طاقت کے بل پر مقابلہ کیا وہ اپنے آپ میں ایک نظیر ہے۔
قومی سیاست کی ماضی قریب کی تاریخ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو موجودہ مرکزی حکومت نے من مانے رویہ میں کانگریس کے اندرا گاندھی کے عہد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جو نقش مرتب ہو رہا ہے وہ انتخابی سیاست کو 1977 کی طرف تقریباًلے جا چکاہے۔اندرا گاندھی کا جہاں 1971 کی جنگ میں فتح نے دماغ خراب کر دیا تھا اور وہ جمہویت اور آمریت کا فرق بھولنے لگی تھیں وہیں کشمیر سے اجودھیا تک کے بعض اشتہاری کارناموں نے موجودہ قیادت کو بھی توازن کھونے پر مجبور کر دیا ہے۔
اگرچہ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کانگریس نے بھی مرکزی حکومت کوانتخابی جھٹکا لگایاہے لیکن اس کا تعلق کسی سیاسی نقصان سے نہیں۔ وہ ایک طے شدہ تبدیلی تھی جو نہ آتی تب حیرت ہوتی۔مغربی بنگال کا الیکشن بالکل ہی مختلف تھا اور قومی سیاست کا رُخ شاید یہیں سے مرتب ہونا طے ہے۔ بالفرض بنگال میں بھی تبدیلی آگئی ہوتی تو قومی سیاست میں دہائیوں کسی ایسے انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی جو ثقافتی نوعیت کا ہو۔اس لحاظ سے کل کے ہندستان کی قیادت اگر کسی حلقے کو ممتا بنرجی کے ہاتھوں میں نظر آتی ہے تو یہ ہرگز دیوانے کا خواب نہیں۔
قومی اور ریاستی انتخابات کے نتائج مرتب کرنے میں جن چیزوں کا عمل دخل ہوتا ہے اُن میں سے ایک حکومت بیزاری بھی ہے۔ایسا نہیں کہ یہ احساس بنگال میں نہیں تھا لیکن اس میں اتنی شدت نہیں تھی کسی تبدیلی کی کوشش کے حق میں سرگرم کردار ادا کرپاتا۔دوسری طرف دیکھا جائے تو حکومت بیزاری کا یہ احساس قومی سطح پر شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اسے ڈھنگ سے بھنانے کا کام نہ کانگریس کر سکتی ہے نہ کانگریس کو ساتھ لے کر چلنے سے بیزار سماجوادی پاڑٰٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں اتنی سیاسی ذہانت ہے کہ وہ اسے کیش کر لیں۔ راشٹریہ جنتادل کی اوقات بھی اب محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ ایسے میں انقلاب پسند ذہنوں میں بس ایک نام گونجتا ہے اور وہ ہے ممتا بنر جی کا۔ کانگریس کے اندر جو آفاقی سوچ رکھنے والے ہیں انہیں اِ س رُخ پراب سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ جس طرح آئندہ سال کے اسمبلی انتخابات کو کم سے کم اتر پردیش میں نتیجہ خیز بنانے کی عملی کوشش کے طور پر پارٹی نے پرینکا گاندھی کو وزیر اعلی کے عہدے کے امیداوار کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اُسی طرح قومی سیاست میں ممتا بنرجی کو وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنا کر پیش کرنا چاہئے۔
وقت آگیا ہے کہ کانگریس خاص طور شمالی، مشرقی اور مغربی ہند میں دوسری سیکولر پارٹیوں سے سیٹیں مانگتے پھرنے کے بجائے اُن اپنوں سے رجوع کرے جو خوشی خوشی نہیں بلکہ اُس کے آمرانہ رویے سے تنگ آکر اُس سے الگ ہوئے تھے۔کوویڈ 19کو رحمت بشکل زحمت تصور کیا جائے جس نے اقلیتی ووٹ بینک کے جواب میں اکثریت کے ووٹ بینک کی سیاست کے نتیجے میں ملک میں امن کو شدید نقصان پہنچنے کے یقینی خطرے کو وقتی طور پر ٹال دیا ہے۔ یہ امر ہر شک سے بالا تر ہے کہ اقلیتی ووٹ بینک نے ہی اس ملک میں اقلیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر کوویڈ 19 کا وقتی عذاب نازل نہیں ہوا ہوتا تو اکثریت کا ووٹ بینک اکثریت کو وہ نقصان پہنچاتا جس کا ادراک ہونے تک حسب ماضی کئی دہائیاں بیت جاتیں ۔
جس سیکولرزم کے ساتھ زائد از چھ دہائیوں کے کھلواڑ نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے کاز کو اتنا نقصان پہنچایاکہ لفظ سیکولرزم گالی بن کر رہ گیا اُسی سیکولرزم کو صحت اور وقار بخشنے میں پچھلے دنوں مغربی بنگال کی اقلیت نے جو انتخابی کردار ادا کیا ہے وہ صد لائق تحسین ہے۔حالانکہ حیدرابادی فرقہ پرست بھی میدان میں موجود تھے لیکن ان کی جھولی میں جھانکنا، تاکنا یا تھوکنا بھی کسی نے گوارا نہیں کیا۔آزاد ہندستان کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں ملت نے سیکولرزم پر اپنے یقین کا لوہا منوایا ہے۔
بہر حال ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بنگال نے جو راہ دکھائی ہے کل اس پر یوپی اور دیگر ریاستیں بھی آنکھ بند کر کے چل پڑیں گی کیونکہ فرقہ وارانہ نفرت اور ہم آہنگی کے پیمانے ہندی بیلٹ میں بنگال سے مختلف ہیں۔بنگال میں صرف فرقہ پرستی نہیں ہاری۔ اگر ایسا ہواہوتا تو ترنمول کو ڈھائی سو سے زیادہ سیٹیں مل جاتیں یا کانگریس اور یساری جماعتوں کی بھی کچھ حلقوں میں لاج رہ جاتی۔بنگال میں اصل جیت سیاسی قیادت کی ہوئی ہے اور شکست رعونت کی ہوئی ہے، فرقہ پرستی کی نہیں۔باوجودیکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مقابلہ آسان تھا۔ ممتا بنرجی کا عملاً عوامی رہنما ہونا کام کر گیا۔ وہ عوام کے ساتھ رہتی ہیں۔ اُن کے ساتھ بھی جو اُن سے خوش ہیں اور اُن کے ساتھ بھی جنہیں اُن سے شکایت ہے۔ اُن کی کامیابیوں میں بڑا حصہ اُن کا اپنا رہتا آیا ہے اور اُن کی محدود ناکامیوں کے بنیادی طور پر وہ لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں
جو انہیں گھیرے رہتے ہیں ۔اِس کمی / زیادتی سے بہر حال کوئی سیاسی پارٹی یا حلقہ محفوظ نہیں۔
دیکھنا ہے کہ کورونا سے متاثر ماحول میںآنے والے دنوں میں قومی اور علاقائی سیاست کن تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ ان تبدیلیوں کا تعلق محض انتخابات سے نہیں، مجموعی سرکاری پروگراموں اور عوامی اطمینان اور بے چینیوں سے ہے۔یو پی کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا بھی قومی سیاست پر خاصا اثر پڑے گا۔اِس ریاست کی اچھائیاں اور برائیاں دونوں راست طور پر قومی سیاست کو متاثر کرتی ہیں۔کانگریس کو چاہئے کہ وہ ترنمول قیادت سے استفادہ کرے اور روایتی گٹھ جوڑ پر حکمت انگیز اتحاد کو ترجیح دے۔یوپی اوربہار دونوں روایتی گٹھ جوڑ کے نتائج جھیل چکے ہیں ۔ آزمودہ را آزمائش جہالت است کے مصداق اس مرتبہ حکمت سے کام لیا جائے اور جو میدان جس کا ہے اُسے وہاں بے خلل چھوڑا جائے پھر دیکھا جائے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔