تحریر : عبداللہ عثمانی، دیوبند
برصغیر کی ممتاز شخصیتوں میں ایک روشن نام مولانا ابوالکلام آزاد کا بھی ہے جن کی ہمہ جہت صلاحیتوں نے نہ صرف اہل ہند کو متاثر کیا بلکہ ان میں خود اعتمادی اور باہمی محبت کا جذبہ جگایا۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ (۱۱؍نومبر ۱۸۸۸ء تا ۲۲؍فروری ۱۹۵۸ء) کے علمی، ادبی، دینی اور مجاہدانہ کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ مولانا کی علمی سرگرمیوں کا ذریعہ ہندوستا ن کی جامع نایاب زبان اردو ہے، اردو زبان کی وسعت اور مولانا کی بے نظیر فکر و علمیت نے ایک ایسے ادب کو جنم دیا جس کی نظیر دیگر زبانوں میں ملنا دشوار ہے، مولانا کی تحریریں جس زور بیانی کے ساتھ زندہ و تابندہ ہیں اس کی قدر صرف اہل علم اور صاحبِ زبان ہی سمجھ سکتے ہیں، بہرکیف ۱۱؍نومبر مولانا کے یوم پیدائش کے حوالے سے ہم مولانا کی ایک نادر تحریر ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ (India Wins Freedom) ’’ہماری آزادی‘‘ پر نہایت اجمالی روشنی ڈالیں گے۔
واضح ہو کہ اس سے قبل راقم الحروف مولانا آزادؒ کی سب رنگ پہلو شخصیت پر تقریباً دو درجن تحقیقی و علمی مضامین زیر قلم لاچکا ہے، ان میں تحریک آزادی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا آزاد کے خطوط میں انشاء، مولانا آزاد کی اردو صحافت، مولانا آزادکی سحر انگیز خطابت، مولانا آزاد کا طرزِ تحریر، مولانا آزاد اور غبارِ خاطر، مولانا آزاد کا ادبی مرتبہ، مولانا آزاد مشاہیر کی نظر میں وغیرہ قابل ذکر ہیں (India Wins Freedom) ہماری آزادی کے بارے میں احقر نے بچپن میں (۱۹۸۸ء) میں سنا تھا کہ مولانا آزاد کی بعض پُراسرار تحریریں ایک عرصہ سے محفوظ تھیں، جنہیں حال ہی میں منظر عام پر لایا گیا مگر اس وقت احقر گہرائی اور حقائق سے ناواقف تھا۔
انڈیاونس فریڈیم (ہماری آزادی) یہ مولانا آزاد کی آخری کاوش ہے جس کے مرتب پروفیسر ہمایوں کبیر ہیں، اس مسودے کی زبان انگریزی ہے، جس کو پروفیسر مرحوم نے ۱۹۵۷ء کے اواخر میں مولانا کو دیکھا یا مولانا آزاد نے اس کو پڑھ کر ہدایت دی تھی کہ اس مکمل متن کی دو نقلیں مہربند تیار کی جائیں جس کی ایک کاپی نیشنل لائبریری کلکتہ، دوسری نقل نیشنل آرکیوز دہلی میںجمع کردی جائے۔ تقریباً بیس برس تک یہ تحریر معمہ اور راز بنی رہی کہ آخر اس مسودہ میں کیا لکھا ہے، اس پر طویل بحثیں اور تبصرے ہوتے رہے۔
۲۲؍فروری ۱۹۵۸ء کو مولانا کی وفات ہوئی، ان کی وفات کے تیس برس بعد یعنی ۲۳؍دسمبر ۱۹۸۸ء کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس پی ایس کمرپال کی ہدایت پر ۲۹؍ستمبر ۱۹۸۸ء کو مولانا ازاد کے یہ تیس صفحات پر مشتمل یہ مسودہ اورینٹ لانگ مین پریس کے حوالے برائے اشاعت کردیا گیا، جس نے مواد کا جائزہ لے کر اس کو ۱۹۸۸ء میں شائع کیا۔
حال ہی میں مولانا آزاد پر ایک کتاب ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان اورنگ آبادی کی ’’مولانا ابوالکلام آزاد :ایک تاریخی مطالعہ‘‘ شائع ہوئی ہے۔ زیر نظر مضمون میں بعض اقتباسات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
اس مسودہ کا اصل متن انگریزی زبان میں ہے، جس کے اردو تراجم بھی شائع ہوئے ہیں،ان میں شمیم حنفی،پروفیسر محمد مجیب، نعیم اللہ ملک کے ترجمے قابل ذکر، یہ تحریر ۱۶؍مختلف عنوانات پر مشتمل ہے:
(۱)کانگریس کا اقتدار (۲)یورپ میں جنگ (۳)میں کانگریس کا صدر بنایا گیا (۴)چین کی طرف آمد (۵)کرپسی مشن (۶)بے چینی کا واقعہ (۷)ہندوستان چھوڑو (۸)قلعہ احمدنگر جیل (۹)شملہ کانفرنس (۱۰)عام انتخابات(۱۱)برٹش کبینیٹ مشن (۱۲)تقسیم کا پیش خیمہ (۱۳)انٹرم حکومت (۱۴)مائونٹ بیٹن مشن (۱۵)ایک خواب کا خاتمہ (۱۶)منقسم ہندوستان۔
مذکورہ بالا تحریر دراصل مولانا کے سیاسی افکار و اختلافات پر مشتمل ہے، جس میں آپ نے موجودہ حالات کا باریکی سے جائزہ لے کر اپنی فکر، اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ بہرکیف مولانا کی آخری تحریر سے نہ صرف مولانا آزاد کی سیاسی گرفت اور دور اندیشی کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان کے معاصر سیاست دانوں کی سوچ و فکر کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔چنانچہ کانگریس اقتدار کے تحت عنوان میں رقم طراز ہیں:
’’کانگریس کو ۱۹۳۵ء میں اکثریت ملی، ۱۹۳۵ء کے قانون میں صوبائی خود مختاری کا اعلان کیا گیا تھا، اس میں مولانا کے مطابق دو واقعات کو ریاستی کانگریس کمیٹیوں کے رویے سے خراب تاثر قائم تھا، ممبئی میں نریمان مسلم لیڈر تھے اور ڈاکٹر سید محمود بھی بہار کے اہم لیڈر تھے۔ اور آل انڈیا کمیٹی کے جنرل سکریٹری بھی تھے، مولانا نے ان دونوں کی سفارش کی لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔‘‘
عنوان۱۶ ’’منقسم ہندوستان‘‘ کے تحت لکتے ہیں:
’’لارڈ مائونٹ بیٹن ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان گئے، وہاں نئے ملک کا افتتاح کیا اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ مولانا لکھتے ہیں جہاں تک ہندوئوں اور سکھوں کا تعلق ہے ان کا ایک ایک آدمی تقسیم کے خلاف تھا، وہ مسلمان بھی جو مسلم لیگ کے پیروکار تھے تقسیم کے نتیجے میں دہشت زدہ تھے، سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے، دہلی میں فسادات رونما ہوئے۔‘‘
بہرکیف مولانا ابوالکلام جیسا مفکر، مدبر اور عالم دین حق اور ناحق کی بھرپور بصیرت کا حامل تھا، تقسیم ہند کے اصل ذمہ دار کون ہے اور اس وقت سلگتے ہندوستان کا جواب دہ کون تھا ان سوالوں کے جواب مولانا نے دئیے ہیں۔ انڈیا ونس فریڈم ’’ہماری آزادی‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے، جس کے مطالعے سے مولانا کے عہد کی بعض تصویر ابھر آتی ہیں، مولانا کا نقطۂ نظر اور ان کے عہد کے افراد کی سوچ کیا تھی؟ یہ تمام واقعات کیوں پیدا ہوئے؟ کیا سچ تھا اور کیا جھوٹ؟ ان تمام سوالات کے جواب ’’ہماری آزادی‘‘ کے مذکورہ تیس صفحات میں اشارۃً مل جاتے ہیں۔
آخر میں ہم ’’ہماری آزادی‘‘ کے بارے میں نامور قلم کار و مصنف ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان کی کتاب ’’مولانا آزاد ایک تاریخی مطالعہ‘‘ کے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:
’’مختصر یہ کہ ’’ہماری آزادی‘‘مولانا آزاد کے دلی جذبات کا اظہار ہے جو ان کے دل میں پوشیدہ تھے، جن باتوں کو وہ ناپسند کرتے تھے انہیں تحریری طور پر ان اوراق میں بیان کیا ہے جومولانا کے بیشتر خیالات اور رائے بحیثیت کانگریسی صدر تھیں لیکن آخر میں انہیں مایوس ہونا پڑا، خصوصاً ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء اور ۱۹۸۰ء کے چند واقعات اور حالات سے مایوس ہوچکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عہدۂ صدارت قبول نہیں کیا تھا۔ چنانچہ آپ نے ساتھیوں سے اپنے اختلافات یا ان کے تئیں اپنی ناپسندیدگی کی جانب اشارے کئے ہیں۔‘‘ (مولانا ابوالکلام آزادؒ: ایک تاریخی مطالعہ، ص:۱۲۷)