تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
( جنرل سکریٹری ؍ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ )
ہندوستان میں علمی، دینی، ملی ، سیاسی اور سماجی اعتبار سے جن لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنی شناخت اور پہچان سے ہزاروں اور لاکھوں دلوں پر حکومت کی اور پوری دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا، ان میں ایک اہم اور نمایاں نام مولانا محی الدین ابولاکلام آزاد رح کا ہے۔ مولانا آزاد ہندوستان کے ان عبقری اور جنیس لوگوں میں تھے ، جنہوں نے اکیڈمک انداز میں کام کیا اور ملک و ملت کا نام روشن کیا۔ ایسے ہی عبقری اور بے مثال انسانوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بہت مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا آزاد رح کی پیدائش 11 نومبر1888ء مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی، لیکن جب وہ دس سال کے ہوئے تو ان کے والد مولانا خیر الدین مع اہل و عیال ہندوستان آگئے اور شہر کلکتہ میں مقیم ہوگئے، مولانا آزاد کی زندگی اور تعلیم و تربیت کا زیادہ تر زمانہ یہیں گزارا۔ مولانا نے باضابطہ کسی مدرسہ میں رسمی انداز میں تعلیم نہیں حاصل کی اور نہ سند اور ڈگری لی، لیکن گھر ہی میں اساتذہ اتالیق اور تعلیم و تربیت کا بہترین اور مناسب انتظام کیا گیا تھا، ان اساتذہ کی محنت، لگن اور جہد و جہد نے آپ کی شخصیت کو نکھارنے اور بنانے بڑا کام کیا۔ عربی، فارسی اور اردو زبان کے آپ ماہر تھے ، ایشیا میں ان کا ثانی نہیں تھا، انگریزی کی وہ مشکل کتابیں پڑھاتے تھے، فرانسیسی زبان کا بھی انہیں علم تھا، شعر و شاعری پر استادانہ صلاحیت تھی، کم عمری ہی سے اشعار کہنے لگے تھے۔ میدان سیاست کے وہ ماہر تھے، نہرو اور گاندھی جی بھی ان کے سیاسی شعور کے قائل اور معترف تھے ، بلکہ اپنے سے فائق سمجھتے تھے۔ علم و معرفت کے بھی شناور تھے علوم عقلیہ اور نقلیہ یعنی قدیم و جدید کے سنگم تھے، مولانا آزاد ایک جدید فکر و نظر کے عالم دین اور مشترکہ قومیت کے علمبردار تھے۔ انہیں جدید ہندوستان کے معماروں کے اولین صف میں تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان کے علمی تفوق اور برتری کا اندازہ لوگوں کو اس وقت ہوا جب وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم منتخب ہوئے اور مختلف علمی تحقیقی اور سائنسی اداروں کا قیام آپ کے ذریعہ عمل آیا۔ مولانا آزاد نے ہندوستان میں سائنس اور ٹکنالوجی کے سلسلے میں بیداری لانے اور اس کے عملی استعمال کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔ اپنے ابتدائی دور میں انہوں نے طبیعیات، کیمیات، حیوانات ادبیات اور ارضیات کے موضوع پر تفصیلی مضامین لکھے۔ اس دور میں زیادہ تر مذہبی رہنما ان موضوعات سے اچھی طرح واقف بھی نہیں تھے، مگر مولانا آزاد جدید نظریات کو اپنانے اور دوسروں تک اسے پہنچانے کو ضروری سمجھتے تھے۔
مولانا آزاد ایک عبقری شخصیت کے سیاسی رہنما تھے ۔ ان کی فکر اور فلسفے میں اتنی توانائی اور قوت تھی کہ اس کی روشنی آج بھی مدھم نہیں ہوئی ہے، بلکہ آج کی تاریخ میں، ان نظریات ، اور ان کی خدمات مزید اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔
آج کے اس پروگرام میں اور مولانا آزاد رح کی زندگی سے متعلق سمینار میں مولانا آزاد رح کی زندگی کے دوسرے تمام گوشوں پر الگ الگ مقالہ نگار روشنی ڈالیں گے، لیکن راقم کو جو عنوان دیا گیا ہے وہ مولانا آزاد کی سادگی اور قناعت پسندی ہے۔ حاضرین کی اجازت سے میں اس موضوع پر کچھ خامہ فرسائی کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
حضرات
مولانا آزادؒ انتہائی سادہ انسان تھے، مولانا کی ذاتی زندگی میں بہت سادگی تھی، لیکن اس کے باوجود بہت ہی بارعب اور بااثر انسان تھے، انہوں نے دولت اور مال زر اور شان و شوکت کو کبھی اہمیت نہیں دی ، ان کے والد خانقاہی آدمی تھے مذھبی پیشوا تھے ان کے مریدین و مسترشدین اور اہل تعلق کی بڑی تعداد تعداد تھی، مال و دلت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مولانا آزاد چاہتے تو اسی راہ کو اپنا لیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، مولانا آزاد نے ایک عالم دین کی ذمہ داریوں کو نیا رنگ اور آہنگ دیا، ان کے افکار و نظریات میں عقلی دلائل اور جدت کو فوقیت اور ترجیح حاصل تھی ، اس وجہ سے ان پر نقد و تبصرہ کیا گیا، ان کے خلاف جتنا لکھا گیا اور ان کو جتنا ہدف تنقید بنایا گیا دیگر قائدین اور دانشوروں کو اتنا نہیں بنایا گیا اس اعتبار سے وہ ہندوستان کے ایک مظلوم سیاست داں بھی ہیں، کون سی گالی ہے جو ان کو نہیں دی گئی ہے۔ لیکن مولانا اپنے موقف اور افکار و نظریات پر قائم رہے۔ ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
مولانا آزادؒ کی زندگی میں اخلاقی قدروں کی بڑی اہمیت تھی، اس کی تربیت، رہن سہن بچپن سے ہی اپنے خاندان سے ملی تھی ، ان کے والد کی کتابوں کو لکھنے کا کام ایک شخص کیا کرتے تھے۔ ان کی زندگی، رہن سہن معمولی تھا، کپڑے بوسیدہ، گندے اور کبھی پھٹے بھی ہوتے تھے۔ جب مولانا آزاد نے اس بات کو اپنی والدہ سے کہا تو انہیں جواب ملا کہ کسی کی صورت کو دیکھ کر اس کی خوبیوں کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ کیا خبر کہ اللہ کی نظر میں وہ تم سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ انسان کی عزت کا یہ سبق مولانا آزاد زندگی بھر نہیں فراموش کرسکے۔
کلکتہ میں جب مولانا کا قیام تھا وہ اپنے گھر میں ایک عام آدمی کی طرح رہتے اور زندگی بسر کرتے تھے، یہ مکان گنج سرکولر روڈ پر واقع تھا۔ اب یہاں مولانا آزاد میوزیم ہے، اس میں ان کے ذاتی استعمال کی چیزیں ہیں، ان کی تصاویر اور ان کا بھارت رتن ایوارڈ محفوظ ہے۔
معاشی تنگی کی وجہ سے کبھی کبھی مولانا آزاد اپنے مکان کے کچھ حصہ کو کرایہ پر لگا دیتے تھے۔ وزیر بننے کے بعد بھی ان کی طبیعت کی سادگی برقرار رہی۔ دہلی میں ان کا ذاتی مکان نہیں تھا۔ 4؍ کنگ جارج ایونیو پر ان کا سرکاری بنگلہ تھا۔ اب اسی کی توسیع کرکے نائب صدر جمہوریہ کی رہائش بنا دی گئی ہے۔ یہ سڑک اب مولانا آزاد روڈ کہلاتی ہے۔ ان کی سادگی اور قناعت پسندی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتقال کے وقت ان کے پاس صرف چار ہزار روپیے تھے۔ جو ان کی مختلف کتابوں کی روائیلٹی سے حاصل ہوئے تھے۔
جنہوں نے مولانا آزاد رح کو دیکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد بہت پرسکون اور متحمل مزاج انسان تھے، فطرتا کم گو تھے ، لایعنی کا ان کے یہاں گزر ہی نہیں تھا، اس کے باوجودمزاج میں میں شگفتگی اور ظرافت تھی ، کسسی حالت میں مضطرب اور چیں بجیں نہیں ہوتے تھے۔ ان کے مخالفین نے ان پر سخت تنقیدیں کیں، ان کو مشکوک و متہم قرار دیا، بزدل اور منافق تک کہا لیکن وہ صابر و شاکر بنے رہے، مسٹر جناح مرحوم نے ان پر تیر و نشتر کے بوچھار کئے، لیکن انہوں نے صبر اور برداشت سے کام لیا، جو ایک شریف اور مہذب انسان کی پہچان ہوتی ہے۔
مولانا آزاد بے حد سنجیدہ انسان تھے، مگر کبھی کبھی ان کے جملوں میں شگفتہ بیانی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
مولانا آزاد کو موسیقی سے بھی دلچسپی تھی، بطور خاص ستار بجانے میں بڑی دلچسپی تھی، انہوں باقاعدہ اس فن کی تعلیم حاصل کی تھی، اپنے ایک تجربے کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ جب وہ 1908ء میں عراق گئے تھے تو دجلہ ندی میں کشتی کا ایک سیر کا پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں موسیقی کار اور شاعر حضرات شامل تھے۔ ستار بجانے میں مہارت رکھنے والے مولانا آزاد نے بھی اس پروگرام میں حصہ لیا تھا۔(مولانا آزاد کی کہانی:73)
آگرہ میں چودھویں کی ایک رات تاج محل میں ستار بجانے کے لطف کو انہوں نےایک جگہہ کچھ خاص انداز سے بیان کیا ہے۔
مولانا آزاد کو مصوری بھی بہت پسند تھی وہ خاص طور پر مغل طرز کی مصوری کے بڑے قدرداں تھے، انہیں چائے بھی بہت پسند تھی وہ ہر صبح تین چار پیالیاں چائے ☕ پیتے تھے پھر ناشتے کے بعد، شام میں بھی کئی بار پیتے تھے، مگر ان کی چائے مخصوص تھی، وہ گرین ٹی یا چائنیز ٹی پیا کرتے تھے جو اس وقت بازار میں جیسمین ٹی کے نام سے ملتی ہے۔ اس میں وہ دودھ اور چینی نہیں ملاتے تھے۔ اس چائے کی تعریف انہوں نے اپنے ایک خط میں کی تھی۔ جو ان کے خطوط کے مجموعہ غبار خاطر میں شائع ہوا۔
ایک موقع پر جب انہیں یہ چائے نہیں مل رہی تھی تو انہوں نے لکھا ۔
…افسوس وہ چائے نہیں ہے، جو طبع شورش پسند کو سرمستیوں کی فکر عالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔ وہ چائے جس کا میں عادی تھا، کئی دن ہوئے ختم ہوگئی اور احمد نگر اور پونہ کے بازاروں میں کوئی اس جنس گراں مایہ سے آشنا نہیں۔ مجبوراً ہندوستان کی اسی سیاہ پتی کا جوشاندہ پی رہا ہوں۔ جسے لوگ چائے کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور دودھ ڈال کر اس کا گرم شربت بنایا کرتے ہیں۔ (مولانا آزاد کی کہانی: 74)
ان کی سوانح لکھنے والے بتاتے ہیں کہ مولانا آزاد فطرت کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ جب وہ احمد نگر قلعہ میں قید تھے تو ان کے کمرے کے باہر دو چڑیوں نے گھونسلا بنا لیا تھا۔ ان چڑیوں کی چہچہاہٹ ان کی صبح کو اور بھی دلکش بنا دیتی تھی۔ ان چڑیوں کے سلسلے میں بھی اپنے احساسات و جذبات کو انہوں نے غبار خاطر میں لکھا ہے۔
اس عظیم اور عبقری انسان کا انتقال22؍ فروری 1958ء کو دہلی میں ہوا۔ دہلی جامع مسجد کے پاس ان کی سادہ قبر بھی ان کی سادگی کی ایک یادگار ہے۔ مادر وطن ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے دل و جان سے وقف مولانا آزاد کی ہمہ جہت اور کثیر جہاتی کارکردگی و خدمات کے اعتراف میں بعد از مرگ حکومت ہند نے1992ء میں بھارت رتن ایوارڈ سے سرفراز کیا۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے