تحریر:محمد غزالی خان
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بانیان کی جمیعت کے آخری سپاہی، مفسرقرآن، مدیر، مصنف اور صحافی مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب 22 جنوری 2022 کو خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللله وانا اليه راجعون۔
مولانا کی پیدائش ہندوستانی صوبے اترپردیش کے معروف قصبہ سنبھل میں 15 مارچ 1926 کو ایک معروف علمی گھرانے میں ہوئی تھی۔ وہ جید عالم دین مولانا منظورنعمانیؒ کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ مولانا متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن میں چھ جلدوں پرمشتمل’محفل قرآن‘کے عنوان سے تفسیربھی شامل ہے۔
دارالعلوم دیوبند سے 1950 میں فراغت حاصل کرتے ہی انہوں نے اپنے والد کی ادارت میں نکلنے والے اردو ماہنامہ’الفرقان‘میں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا اور پھر والد کے حکم کے مطابق اس معیاری دینی و ملی جریدے کی ادارت 1953 سے پوری طرح سنبھال لی اور اس ذمہ داری کو اخیر دم تک بطرز احسن نبھایا۔
الفرقان مسلمانان ہند کی بیباکانہ ترجمانی کرنے والا ماہ نامہ تھا جس کے تمام تر اداریے ملی مسائل پرہوتے تھے جو ادارت سنبھالنے کے بعد مولانا عتیق الرحمٰن صاحب خود دتحریر کرتے تھے۔ الفرقان کی بے باکی اورحالات کی حساسیت کے ادراک کا اندازہ اس کے ایک اداریہ کے اس اقتباس سے لگا یا جا سکتا ہے:
’تحریک خلافت کے بعد اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے بعض لیڈروں کے ذہن میں۔۔۔ جنگ آزادی کے دوران ہی۔۔۔ اپنے تہذیبی غلبہ کا منصوبہ ۔۔۔ پیش نظر تھا۔۔۔ ہندو تہذیب، ہندوستانی تہذیب کے نام پر، سرکاری تہذیب بنتی جارہی ہے۔ اور سرکاری وسائل و اثرات اس تہذیب کو فروغ دینے کیلئے پوری آزادی سے استعمال کئے جارہے ہیں۔دس سال پہلے جو باتیں مسلمان بچوں کے متعلق سوچی نہیں جا سکتی تھیں وہ اب اس حد تک سامنے آچکی ہیں۔۔۔ توحید اور شرک سے نہ صرف بُعد گھٹ رہا ہے بلکہ اس کے حدود میں داخلہ تک کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تغیرات اور بھی بہت ہوچکے ہیں، مگر یہ سب سے زیادہ سنگین تغیر ہے جو رونما ہورہا ہے، اور آزادی کے دس سال کا سب سے بڑا اثر جو مسلمانوں پر پڑا ہے۔ اس عرصہ کے حالات کا ایک اور قابل ذکر اثر احساس کمتری اور مستقبل سے ناامیدی ہے۔ 1947کے بعد سے کچھ ایسا ہوگیا جیسے مسلمانوں کے قوائے عمل شل ہوگئے ہوں اور رشتہ امید ان کے ہاتھ سے ہمیشہ کیلے لئے چھوٹ گیا ہو۔ حالات کی نا مساعدت سے گھبرا کر انہوں نے اپنے آپ کو ایک کمزور اور تیرہ بخت گروہ تصور کرلیا ہے۔ اب عموماً وہ یا تو شکوہ و شکایت میں زندگی بسر کرتے ہیں یا مخالف ماحول سے نہایت نامناسب اور معیوب انداز میں صلح کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن شکوہ و شکایت میں زندگی بسر کرنے یا زمانہ سے ساز کرنے کے بجائے ہمت و حکمت کے ساتھ خود زمانہ کو سازگار بنانے اور حالات کی نامساعدت کے علی الرغم مستقبل کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی لگن اور کوشش ان میں اس طرح مفقود ہے جیسے ان کی تاریخ میں اس کی نظیر ہی نہ ملتی ہو یا وہ ایک مرتبہ زوال کے بعد عروج کا امکان ہی نہ تسلیم کرتے ہوں، ایک دو نہیں پورے دس سال اس حالت کو ہونے جارہے ہیں۔‘(جلد 25 شمارہ 10، الفرقان کے اداریوں کے مجموعے بعنوان ’راستے کی تلاش‘ سے ماخوذ صٖفحہ 14 ۔ مولف عتیق الرحمٰن سنبھلی)
حالات سے مایوس نہ ہونا مومن کی شان ہے۔ مولانا نے آزردگی اورناامیدی کی کیفیت کبھی نہ تو خود پرحاوی ہونے دی اور نہ اپنے حلقہ احباب اورقارئین کو اس ذہنی اور نفسیاتی عذاب میں مبتلا کیا۔ اس کی ایک مثال الفرقان کے اس اداریہ، بعنوان ’فرقہ واریت کا نیا ابھار: اس سے نپٹنے کی تدبیر کیا ہے؟‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’رہے مظلومیت کے حالات؟ تو یہ ان انسانوں کو بھی پیش آرہے ہیں جن سے زیادہ معزز وجود کا سایہ اس زمین پر نہیں پڑا اور جن سے زیادہ معزز وجود آسمان نے اپنی کروڑوں گردشوں کے باوجود نہیں دیکھا۔ یہ حالات اس سلسلہ وجود کے اس خاتم کو بھی مسلسل تیرہ برس درپیش رہے جس کے غلاموں کی ٹھوکریں قیصرو کسریٰ کے تحت تخت و تاج تک پہنچیں۔ اور ان غلاموں نے بھی اپنے آقا کی معیت میں یہ دور محن جھیلا۔ مگر کیا انہوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی ان حالات سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو بے وقعت اور بے بس و مجبور سمجھا اور احتقارنفس کا وسوسہ بھی ان کے دلوں پر گزرا؟ خدا گواہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہو گیا ہوتا تو ان کے عزائم اور ان حوصلوں کی بقا کا کوئی امکان نہ تھا جن کے آگے دنیا کی وسعتیں تنگ ہو گئیں۔۔۔ اگر ایسا ہو گیا ہوتا تو اسلام کی تاریخ مکہ سے شروع ہو کر مکہ ہی میں ختم ہوتی۔ اس لئے کہ جس دل میں احساس ذلت و بے چارگی کا گھر بن جائے وہ حوصلوں کا مسکن نہیں بن سکتا اور جس دل میں حوصلوں کی گرمی نہ ہو اس کا انجام جیتے جی مرجانے کے سوا کچھ نہیں۔‘ (الفرقان جلد 26 شمارہ9 ، الفرقان کے اداریوں کے مجموعے بعنوان ’راستے کی تلاش‘ سے ماخوذ، صفحہ 27 ۔ مولف عتیق الرحمٰن سنبھلی)
1962 میں مولانا کی ادارت اورمولانا ابوالحسن علی ندوی کی سرپرستی میں پندرہ روزہ ’ندائے ملت‘شروع کیا گیا۔ ’ندائے ملت‘نے بھی ملت کی بیباکانہ ترجمانی میں کوئی کسرباقی نہ رکھی جس کی انتہا یہ تھی کہ 1965 میں مولانا کے برادرخورد حفیظ نعمانی صاحب کو نوماہ پابند سلاسل رہنا پڑا اور خود مولانا کو ڈفینس آف انڈیا رول کے تحت چھ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
مولانا سے میرا تعارف تو 1983 میں میرے لندن آنے کے بعد ہی ہوگیا تھا مگر نظریات میں شدید اختلاف کے باعث ان سے قربت 1989 میں ان کے گھر سے کچھ فاصلے پررہائش ملنے اور تقریباً محلے داربننے کے بعد ہوئی۔ مولانا سے میرا تعلق عقیدت مندی کا نہیں نہایت دوستانہ تھا اور ادب کے دائرے میں ان سے ہر موضوع پر کھل کربات ہوتی تھی۔ میرے اختلاف پرانہوں نے کبھی ناگواری کا تاثرنہیں دیا۔ بلکہ مجھے اتنا عزیز رکھتے تھے کہ کسی خاص مہمان کے آنے پرمجھے بھی بلالیا کرتے تھے۔
جس وقت مولانا سے میرا تعارف ہوا ،اس وقت بھی ان پر جمیعت العلمائی سوچ حاوی تھی اور میں تازہ تازہ علی گڑھ کے 80 کی دہائی کے ماحول سے نکل کرآیا تھا۔ اس پر یہ کہ کریلااور نیم چڑھا کے مترادف وی ایم حال میں ہمارا نصراللہ ہاسٹل تو کانگریس مخالفت میں کچھ زیادہ ہی آگے تھا۔ دلچسپ یا شاید کچھ لوگوں کے لئے حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا سے جو فکری دوری میں محسوس کرتا تھا اسے دورکرنے والی بھی ایک ایسی شخصیت تھی جن میں علمی ذوق اور ملت اسلامیہ کی خیرخواہی کے علاوہ مولانا کے ساتھ کوئی ایک بات بھی مشترک نہیں تھی۔ اوریہ شخصیت مدیر امپیکٹ محمد حاشرفاروقی صاحب تھے۔ بقول حاشرفاروقی صاحب، مولانا کے خیالات میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔ انہوں نے ایک اچھے معلم کی طرح مجھے تاکید کی کہ لوگوں کی خوبیوں کو دیکھنا چاہئے؛ نہ کہ کسی چھوٹے موٹے اختلاف اور قیاس کی بنیار پران کے بارے دور سے رائے قائم کرلی جائے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ انڈین مسلم فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے مسلم کش فسادات پرہمارے آوازاٹھانے سے مولانا کو اختلاف تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جو کام مسلمان ہندوستان میں رہ کرکرسکتے ہیں اسے ہمیں ملک سے باہرکرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ یہ دلیل میرے لئے یا میری سوچ والے دوسرے لوگوں کے لئے ناقابل قبول تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے ایسٹ لندن مسجد کے حال میں ایک جلسہ رکھا تھا۔ اس وقت میرے اورمحسن اسلم عبداللہ صاحب (جنہیں میں احتراماً اسلم بھائی کہتا ہوں اورجنہوں نے واقعی میرے لئے بڑے بھائی کا کردار بھی ادا کیا یے) لندن میں ہوتے تھے۔ برطانیہ آنے کے کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے ہی میرا تعارف انڈین مسلم فیڈریشن میں کرایا تھا۔ وہ اس جلسے کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھے۔ حاشرصاحب کے کہنے پرہم نے مولانا کو بھی تقریرکی دعوت دی۔ وہاں بھی مولانا نے یہی بات کہی کہ ابھی ہندوستان میں ایسے حالات نہیں ہوئے کہ ہمیں باہرسے احتجاج کرنا پڑے۔ اس پرکچھ لوگوں کا شدید رد عمل بھی سامنے آیا، مگر بابری مسجد کی شہادت کے بعد مولانا کی سوچ بالکل بدل گئی تھی۔ انڈین مسلم فیڈریشن کے خبرنامے ’دی انڈین مسلم‘کے لئے ان سے لکھوائے گئے ایک مضمون (The Indian Muslim, August 1996, Vol 3, No 3) میں اپنی بدلتی ہوئی سوچ کا ذکرمولانا نے کھل کرکیا ہے۔ (مولانا نے مضمون اردو میں لکھا تھا جس کا انگریزی ترجمہ خبرنامے میں شائع کیا گیا تھا)۔ اس کے بعد تو مولانا تقریباً ہرمظاہرے اورہراحتجاجی میٹنگ میں شرکت کرنے لگے۔ 2003 میں نریندرمودی کی پہلی برطانیہ آمد پراحتجاج میں انہوں نے تقریربھی کی تھی۔
سن 2000 میں جب بی جے پی کے وزیراعلیٰ رام پرکاش گپتا نے UP Hindu Religious Places (prevention of misuse) Act 1962 کی جگہ UP Religious Places Bill لانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اقلیتوں کے لئے ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے بغیر عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات پر معمولی سی ترمیم و تعمیر کرنا بھی محال ہو جاتا، لندن کی انڈین مسلم فیڈریشن نے اس فسطائیت کے خلاف ایک دستخطی مہم شروع کی جس میں برطانیہ بھر سے تیرہ ہزاردستخط کروا کر ایک پیٹیشن ہندوستانی سفیر نریشور دیال صاحب کو دی گئی تھی۔ یہ مہم مولانا ہی کی تجویز کے بعد شروع کی گئی تھی جس کی کامیابی کے لئے انہوں نے بیماری اورضعف کے عالم میں دوردرازکا سفرکرکے مساجد میں جا جا کراس پیٹیشن پردستخط کروائے۔ مگرجب پیٹیشن ہائی کمیشن میں جمع کروانے کےلئے جانے والے وفد کے ارکان کی بات آئی تواس میں مولانا کی شمولیت کی تجویزپر کچھ ضرورت سے زیادہ لبرل لوگوں کو سخت اعتراض ہوا۔ احتجاجاً میں نے بھی اس میں شامل ہونے سے انکارکردیا۔ مگر مولانا کے اصرارپرمجھے وفد میں شامل ہونا پڑا۔
(ممکن ہے بہت سے قارئین کو معلوم نہ ہو اسلئے بتاتا چلوں کہ برطانیہ میں ہندی نژاد مسلمانوں کی ایک پرانی تنظیم انڈین مسلم فیڈریشن ہے۔ 1969 میں ایک پریشر گروپ کے طور پر کام کرنے کی غرض سے قائم کی گئی یہ تنظیم تقریباً سن 2000 تک اپنے اصل مقصد پر قائم رہی مگر اب صرف ایک مقامی تنظیم کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا کام نہیں رہ گیا ہے۔ گجرات مسلم کش فسادات کے بعد دوسری کونسل آف انڈیان مسلز کے نام سے قائم کی گئی۔ چند سال نہایت فعال انداز میں کام کرنے کے بعد یہ تنظیم قصہ پارینہ ہوگئی۔ برطانیہ میں مسلمانان ہند کی دو بڑی تنظیموں کے قتل کی کہانی سنانا مجھ پرواجب ہے۔ انشااللہ اس کام کو بھی جلد کروں گا۔)
مولانا کی سوچ کی تبدیلی کا احساس اس دن اورزیادہ ہوا جب انہوں نے ایک ایسا مشورہ دیا جس کی توقع کسی دیوبندی عالم سے نہیں کی جا سکتی۔ میری سسرال اہل حدیث ہے۔ اس گھرانے سے مولانا نہ یہ کہ خوب اچھی طرح واقف تھے بلکہ دونوں گھرانوں کے آپسی مراسم بھی تھے۔ ان دنوں ہمارے گھر کے نزدیک کوئی مسجد نہیں تھی۔ لہٰذا نمازگھرپر ہی پڑھتا تھا۔ ایک دن نماز جمعہ سے واپسی پرمولانا نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہم دونوں الگ الگ نماز پڑھتے ہیں یا جماعت کرتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کبھی جماعت کرلیتے ہیں، کبھی الگ الگ پڑھ لیتے ہیں۔ مولانا نے مشورہ دیا کہ باقاعدگی کے ساتھ جماعت کرنے کی کوشش کیا کرو(بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے) کیونکہ بچے والدین کو جو کچھ کرتے دیکھتے ہیں اسی سے سیکھتے ہیں۔ مولانا نے مزید کہا کہ ’اور کبھی کبھی ایک وتربھی پڑھ لیا کرو۔ اس سے اچھا اثرپڑے گا۔‘ میرے لئے یہ مشورہ حیرت ناک تھا مگر بہت قیمتی اور فائدے مند ثابت ہوا۔
خیالات کی تبدیلی کی دوسری مثال اس وقت سامنے آئی جب مولانا اور میں لندن کے نہرو سینٹرمیں منعقد کرائے گئے ایک لیکچر میں ایک ساتھ گئے۔ لیکچرکے دوران مغرب کا وقت آگیا۔ مولانا نے مجھ سے کہا کہ چلیں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ مولانا با وضو تھے۔ میں وضو کے لئے اور وہ کلی کرنے کرنے کے لئے اٹھے۔ وضو کرتے وقت مولانا نے مجھے سے کہا کہ: ’اگرعصرکے وقت وضو کرکے موزے پہن لیئے تھے تو مسح کرلو۔‘
برطانیہ میں مسلکی اختلافات پربھی مولانا کی سوچ میں بہت تبدیلی آگئی تھی۔ ہندوستان یا پاکستان سے آئے ہوئے مولویوں کی مسلکی عصبیت کو ہوا دینے اور لچک پیدا نہ کرنے کی روش سے بہت نالاں رہتے تھے۔ خود اپنے اندرتبدیلی کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ مجھ سے بتایا تھا کہ جس مسجد میں وہ نماز پڑھاتے تھے اسی کے نزدیک پاکستانی خواتین کی ایک فعال اور معروف تنظیم ’پاکستان ویمینز ویلفئیر ایسو سی ایشن‘تھی۔ مولانا نے بتایا کہ: ’میں نیا نیا امام مقرر ہوکر ہندوستان سے آیا تھا۔ مجھے نہ تنظیم کے بارے میں معلوم تھا اورنہ برطانیہ کے مسلمانوں کے رہن سہن اور ماحول کے بارے میں کچھ جانتا تھا۔ ایک صاحب نے تنظیم میں سیرت نبویﷺ پرتقریرکرنے کی فرمائش کردی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ مسلم تنظیم ہے اور دینی پروگرام ہے۔ لہٰذا مرد سامنے ہوں گے پیچھے پردے میں خواتین ہوں گی۔ مگر جب میں وہاں پہنچا اورمخلوط پرگرام دیکھا تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ دل چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں۔ مگر پھرخیال آیا کہ اگراس ملک میں کام کرنا ہے تو اپنے اندرلچک تو پیدا کرنی ہوگی۔ میں نے سیرت طیبہﷺ پر تقریر کی مگر اس موقع پر نرمی کے ساتھ جو پیغام دینا ضروری تھا وہ بھی دیا۔‘
مولانا میں ظرافت بھی خوب تھی۔ ایک مرتبہ برمنگھم میں چند متشدد مولویوں کی جانب سے کچھ ایسی خبرسننے میں آئی کہ انہوں نے سعودی عرب سے کوئی فتویٰ حاصل کیا ہے جس کے مطابق فقہ حنفی پرعمل کرنے والے لوگ مسلمان نہیں تھے۔ مولانا سے میری ملاقات ہوئی تو مذاقاً مجھ سے کہا: ’لو میاں! تمہارا نکاح ناقص قراردے دیا گیا۔‘ مولانا کی چھوٹی بیٹی کی شادی اہل حدیث گھرانے میں ہوئی ہے۔ میں نے جواب دیا: ’مولانا آپ نے تو وہاں بیٹی دی ہوئی ہے۔‘مولانا ہنسے اورکہنے لگے کہ: ’ہاں شام میں داماد آئے گا۔ پوچھوں گا کہ بھئی تمہارے گھرانے، اور جن لوگوں نے رشتے کی بات چلائی تھی، انہوں نے (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہےرشتہ برطانیہ کے معروف اہل حدیث عالم مولانا مرحوم محمود احمد میرپوری صاحب نے کرایا تھا) تو ہمیں مسلمان سمجھا تھا۔ ہمارے نزدیک تو تم پہلے بھی مسلمان تھے اب بھی ہو۔ اب تم اپنے مولویوں سے پوچھ لو کہ ان کا کیا فتویٰ ہے۔‘
مولانا کی شگفتہ مزاجی اور بزلہ سنجی کا اندازہ ایک اور واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔اپنے دو بزرگوں، حاشرفاروقی صاحب مرحوم اور مولانا عتیق صاحب کو کمپیوٹرکی افادیت کا قائل کرکے اس کا عادی بنانے کی نیکی میرے نامہ اعمال میں ہے۔ میرے کہنے پر مولانا نے اپنے کسی دوست سے اس بارے میں پوچھ لیا۔ انہوں نے ایک کمپیوٹرپرانپیج انسٹال کرکے مولانا کو پہنچا دیا۔ آہستہ آہستہ مولانا نے اسے سیکھ لیا اور اپنے تمام مضامین اورکتب براہ راست کمپیوٹرپر ٹائپ کرنا شروع کردئے۔ مولانا الفرقان کے لئے اپنے مضامین فیکس کیا کرتے تھے۔ اس وقت تک انٹرنیٹ عام ہوچکا تھا۔ میں نے ایک دن مولانا کو انٹرنیٹ کے فوائد بتائے اوراپنے گھرلاکر اس کا مشاہدہ بھی کرایا۔ مولانا نے فوراً کہا کہ میرے کمپیوٹر میں بھی ڈالو۔ مگر ان کا کمپیوٹربہت پرانا تھا۔ بہرحال وہ کمپیوٹربدلنے پرراضی ہوگئے اور نیا کمپیوٹرخریدلیا۔ پرانے کمپیوٹرکے برعکس نئے کمپیوٹر میں سلیپ موڈ کا آپشن بھی تھا۔ ایک دن مسجد سے باہر مولانا سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: ’ارے بھئی یہ کیا ہے۔ بار بار بند ہوجاتا ہے۔‘ میں نے کہا نہیں، جب وہ آپ کو وقفہ کرتے دیکھتا ہے تو کمپیوٹر بھی سونے چلاجاتا ہے۔ مولانا نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تبصرہ فرمایا: ’یعنی اب مجھے اس کے نخرے بھی سیکھنے پڑیں گے۔ بالکل بڑھاپے میں جوان لڑکی سے نکاح کرنے والی کیفیت ہے۔‘
مولانا شام کی چائے ’گرین لیبل‘اور چائے کی کچھ دوسری قسموں کو ملاکر خاص اہتمام کے ساتھ ٹیکوزی میں دم کرکے خود بنایا کرتے تھے۔ گھر نزدیک ہونے اور چائے کا شوقین ہونے اور کچھ بات چیت کے لئے مجھے کبھی کبھی فون کردیا کرتے تھے اور کہتے تھے: ’وقت ہو توآجاؤچائے ساتھ پی لیں گے۔‘ ایک دن مولانا مودودی اورمولانا کے والد محترم کے اختلافات کا ذکرآگیا جس پر انہوں نے بتایا کہ: ’میرے والد کو دعاؤں سے خاص شغف تھا۔ جن لوگوں کے لئے وہ خاص طورپردعا کیا کرتے تھے ان میں’’محسنین‘‘ سب سے پہلے آتے تھے اور ان محسنین میں ایک نام مولانا مودودی کا تھا جن کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ مجھے دین کا وسیع تصوران سے ملا ہے۔‘ میرے لئے یہ بات حیرت ناک تھی۔ میں نے پوچھا کہ مولانا کیا آپ یہ بات اپنے حلقے میں کہہ سکتے ہیں؟ اس پرمولانا نے جواب دیا: ’میں کہہ چکا ہوں اوراس کی پاداش میں لمبے عرصے تک میرا تقریباً بائیکاٹ جاری رہا۔‘
برطانیہ میں بھی مولانا نے فعال زندگی گزاری اور یہاں سے چلنے والی رشدی مخالف تحریک میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ لندن کے ہائڈ پارک میں ہونے والا سب سے پہلا مظاہرہ ان کی قائم کردہ ’اسلامک ڈفینس لیگ‘ کے زیراہتمام ہی ہوا تھا۔ وہ اسے ایک پرامن تحریک رکھنا چاہتے تھے۔ مگر جس نہج پر یہ تحریک جانے لگی تھی اس سے وہ بہت برداشتہ ہوئے تھے اور ایک کتابچہ ’ہماری تحریک موت کے سائے میں‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات کے بارے میں مولانا کافی فکرمند رہتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی تلخی برطانیہ میں نہ پہنچ چائے۔ مجھے سن یاد نہیں۔ غالباً 90 کی دہائی میں برطانیہ میں ڈپٹی ہائی کمشنرسلمان حیدرصاحب ہوتے تھے۔ مولانا نے ان سے وقت لے کرملاقات کی جس میں برطانیہ میں اس خلفشارکے نہ آنے دینے کی خاص کوشش کرنے کی تجویز دی۔ سلمان حیدرصاحب مولانا کی بات سن کربہت متاثر ہوئے اور کہا: ’یہاں تو لوگ ذاتی کاموں کے لئے وقت لیتے ہیں، مجھے امید نہیں تھی کہ آپ ایسے اہم اورسنجیدہ مسئلے کے لئے تشریف لائیں گے۔‘ اس ملاقات کے بعد سلمان حیدرصاحب نے مولانا کو کچھ فون کئے؛ مگر کچھ ہی دنوں بعد مولانا کی صاف گوئی سے سلمان حیدرصاحب ایسے مایوس ہوئے کہ دوبارہ کبھی فون نہیں کیا۔
ہوا یوں کہ 1991 میں دہشت گردانہ حملے میں راجیو گاندھی کی موت پرہائی کمیشن نے تعزیتی میٹنگ رکھی۔ نام نہاد ’گنگا جمنی تہذیب‘ ایسے ہی مواقع پرلوگوں کو یاد آتی ہے۔ لہٰذا مولانا کے پاس ہائی کمیشن سے فون آیا اور فرمائش کی گئی کہ وہ اس موقع پرتلاوت فرمادیں۔ ایک لمحے کے توقف کے بغیرمولانا نے جواب دیا: ’جہاں تک میرے علم میں ہے، راجیو گاندھی کا اس کتاب پریقین نہیں تھا۔ اس طرح ان کی تعزیتی میٹنگ میں اس کی تلاوت کیا جانا اس کتاب کی بھی توہین ہے اور راجیو گاندھی کی بھی۔‘
جن لوگوں سے ہندوستان کے حالات پرسنجیدہ بات ہوجاتی تھی وہ ان میں ایک تھے؛ باوجود اس کے کہ مولانا کو دہلی واپس گئے ہوئے بھی کئی سال ہوچکے اور کافی عرصے سے ان سے کوئی بات نہیں ہوپائی تھی؛جو خلا ان کے انتقال سے پیدا ہوا ہے میرے لئے تو وہ بہت پہلے سامنے آگیا تھا مگر اس کے باوجود اس کا احساس آج بہت زیادہ ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے درجات بلند فرمائے۔