امتِ مسلمہ کے ایک عظیم خادم، دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے سابق رکن، جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کے روحِ رواں، خادمِ قرآن مولانا غلام محمد وستانویؒ آج طویل علالت کے بعد اس فانی دنیا سے رخصت فرماگئے۔
مرحوم کئی مہینوں سے علالت کے سبب صاحبِ فراش تھے اور مسلسل ان کی صحت سے متعلق تشویشناک خبریں مل رہی تھیں۔
بلاشبہ مولانا وستانویؒ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی علمِ دین کی ترویج، دینی اداروں کے قیام، مدارس کی سرپرستی، قرآن کی خدمت اور نسلِ نو کی اسلامی و عصری تعلیم سے آراستگی میں وقف کر دی۔
جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں ان کا وہ عظیم خواب تھا جسے انہوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا، اور آج وہ ادارہ دینی و عصری تعلیم کا ایک تناور درخت بن چکا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ زیورِ علم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کے کئی حصوں میں آپ کے قائم کردہ مدارس، مکاتب، اسکول اور دیگر تعلیمی مراکز آج بھی دین و علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔
مولانا کی خدمات کا دائرہ صرف ایک ادارے تک محدود نہ تھا۔ آپ نے ملک گیر سطح پر قرآن مجید کے حفظ، تجوید، مسابقہ اور فروغ کے لئے جو محنت کی، وہ بے مثال ہے۔
مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ کے انتقال کے بعد دارالعلوم دیوبند کے اجلاسِ شوریٰ میں مولانا وستانویؒ کو دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم درسگاہ کا مہتمم منتخب کیا گیا، اگرچہ ناسازیٔ حالات کی وجہ سے آپ کی مدتِ اہتمام مختصر رہی،اور ان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا لیکن اس انتخاب نے آپ کی لیاقت ، دیانت و صلاحیت پر مہر ثبت کر دی۔
تزکیۂ نفس، سلوک و احسان کے میدان میں بھی حضرت کا تعلق معروف بزرگ مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ سے تھا، جن سے آپ نے بیعت و خلافت حاصل کی اور اصلاحی تعلق میں عمر بھر پابندی و اخلاص کے ساتھ وابستہ رہے۔ادارہ ان کے خمغم میں برابر کا شریک ہے