دوٹوک:قاسم سید
کیا معروف عالم دین مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی اس بار برے پھنس گئے ہیں ،کیا ان کے بیانات ہیٹ اسپیچ کے دائرے میں آتے ہیں یا اپنے حالیہ بیانوں پر ان کی وضاحتوں سے معاملہ نمٹ جائے گاـ آخر معاملہ کہاں جاکر ختم ہوگا . مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں ان کی سرگرمی ،ایم آئی ایم سے اختلافات،امتیاز جلیل کی بجائے این سی پی امیدوار کی حمایت اور انڈیا الائنس کے اُمیدواروں کی اکٹریت کو ووٹ دینے کی اپیل ،بی جے پی کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کے بائیکاٹ اور حقہ پانی بند کرنے ہر زور وغیرہ ایسے "سنگین جرائم” ہیں جن کے سبب معتوب ٹہرائے جارہے ہیں یہ ایسے ماحول میں ہورہا ہے جب سادھو سنتوں کی طرف سے آئے دن زہریلے بیان آتے رہتے ہیں ،گزشتہ دنو ں دہلی میں منعقد نام نہاد دھرم سنسد میں ہندوؤں کو ہتھیار رکھنے کے لئے اکسایا گیا، انتہائی اشتعال انگیز ہیٹ اسپیچ دی گئیں اور کوئی اعتراض کرنے والا نہیں،مسلمانوں کی تو خیر کوئی سنتا نہیں ـایسا لگ رہا ہے کہ مولانا سجاد نعمانی سے خار کھائے لوگ مہاراشٹر الیکشن کے بہانے ان کی ‘صاف گوئی’ کی سزا دینا چاہتے ہیں ان میں اپنے بھی ہیں اور پرائے بھی ،اگرچہ ان کے بعض فیصلوں اور بیانات پر تحفظات بھی ہیں ان سے بچا جاسکتا تھا اور نزاکتوں کا خیال رکھ لیا جاتا.
مولانا عمانی کی طرف سے بی جے پی کو ووٹ دینے والے مسلمانوں کا حقہ پانی بند کرنے ،ان کا بائیکاٹ کرنے کے سے متعلق بیان کی مہاراشٹر الیکشن کمیشن کے حکام کے پاس شکایت درج کرائی گئی۔ بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے دعویٰ کیاکہ الیکشن افسر نے مولانا کے ‘تفرقہ انگیز’ تبصروں کی تحقیقات شروع کر دی ہیں پربھنی ضلع کے الیکشن افسر نے کہا کہ” ہم نے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔
مولانا نعمانی دودھاری تلوار پر ہیں ایک طرف ایم آئی ایم کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہر ان کے خلاف طوفان برپا ہے مگر اویسی اور امتیاز جلیل نے اس رویے کی مذمت کی اور خلاف تہذیب قرار دیا، اختلاف رائے کےحق کو یاد دلایا اور کہا ہم ان کی رائے کی مخالفت کریں گے یہ شاندار روایت کی پاسداری ہے ـ یہ الگ بات ہے کہ مولانا کا یہ فیصلہ ووٹروں کے حلق سے نیچے نہیں اترا وہ اس سے بچ بھی سکتے تھے ،ووٹروں کی صوابدید ہر چھوڑا جاسکتا تھاـاس اقدام کی مصلحت کیا ہے وہی جانیں
دوسری طرف مولانا ئے محترم ہندتووادی طاقتوں کے نشانے پر آگئے ،ایک مخصوص الائنس کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی اپیل پھر بھی نظرانداز کی جاسکتی ہے ـکسی کے حق میں مہم چلانے کے جمہوری کردار نبھانے سے کئی نہیں روک سکتا مگر کسی دوسرے کو یہ حق نہ دینے دینا کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا ـ بی جے پی کو ووٹ دینے والوں کا ،حقہ ہانی بند کردینے کا مطالبہ یا اپیل حکمراں پارٹی کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا اور اس کو ایشو بنالیا سی ایم میٹریل دیویندر فڈنویس اسے اپنے جلسوں میں سنایا مہاراشٹرا میں ہار کی صورت میں مرکز کی حکومت تین ماہ میں گرجانے کی مولانا کی پیشن گوئی کا بھی بہت شہرہ ہے ـیہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مولانا اپنے کسی بیان کی وجہ سے تنازع میں پھنسے ہیں بارہا ایسے مواقع مولانا نے دئے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا میں ڈبیٹ ہوئی ہیں ـ شاید یہ پہلا موقع ہے جب وہ چوطرفہ گھرے ہوں ایسا نہیں ہے کہ مولانا کے موقف کی تائید نہ کی جارہی ہو مولانا ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو چاہنے والے کوئی دیگر لفظ سننا نہیں چاہتے اور شدید مخالف بھی ایسے ہیں کہ ان کی موافقت میں ایک لفظ بولنا نہیں چاہتے ـ,وہ ان کی آنکھ کی کرکری ہیں ـایسی رائے بھی ہے کہ ان کے بیانات سے بی جے پی کو فائدہ پہچے گا بھلے ان کی نیت نہ ہو لیکن ایک ہتھیار بی جے پی کے ہاتھ میں آگیا ہے ـ پارٹی کے بڑے لیڈر اگر ایشو بنارہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ مولانا کو ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لیا جاتا ـ بہر حال اس ہجوم پریشاں میں ایک طاقتور رائے یہ بھی ہے کہ اس گئی گزری حالت میں سیاستدانوں میں اویسی اور علما میں مولانا نعمانی صاحبان اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات تو کرتے ہیں ـ یہ شور ووٹنگ تک ہے یا بات دور تک جائے گی فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ـافسوس یہ ہے ہمارے یہاں نفسانفسی کا دور ہے ،ازمائش اور چیلنجوں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا عمومی رویہ یہی ہے اختلاف ہے تو خواہش یہ ہوتی ہے تھوڑا مزاج ٹھکانے آئے گا -مولانا سجاد نعمانی خود کو سنبھال کر رکھیں گے،اس میں سب کی بھلائی ہے ،انہیں بہت کچھ کرنا ہے ـ قائدین کے لئے ضروری ہے اپنے مشیر چوکس ‘باخبر، دوراندیش اور خیرخواہ رکھیں رات کو دن اور دن کورات کہنے والوں نے ماضی میں بیڑہ غرق کیا ہے مستقبل میں ایسا نہیں کریں گے یہ ہو نہیں سکتا ـ دواور دو پانچ نہ کہنے والے ہی سچے اور کھرے ہوتے ہیں ـجبکہ خوشامدی،چاپلوس اورسچ ہے حضرت کا فرمایا کی گردان کرنے والے ہی اصلی دشمن ہیں۔ -مگر کیا کیجیے ہمارے بڑوں کے ارد گرد آلا ماشاءاللہ ایسے ہی لوگوں کا میلہ ہے۔