ـ مولانا بدر الحسن القاسمی
مولانا وحید الدین خان صاحب بھی اپنی زندگی کے ایام پورےکرکے اس دار فانی سے رخصت ہو گئےـ اناللہ وانا الیہ راجعون
وہ ایک اچھے قلم کار اورممتاز انشاپرداز تھےـ اپنی زندگی میں وہ کئی مراحل سے گزرےـ ایک زمانے میں وہ مولانا ابوالاعلی مودودی کی جماعت کے معتمد افراد میں شمار کیے جاتے تھے، مرکزی شوری کے رکن بھی تھے اور ان کے بعض مضامین جماعت کے نصاب کی کتا ’تعمیری ادب ‘ کا حصہ تھےـ پھر مودودی صاحب کے فکر سے اختلاف ہوا تو انہوں نے طویل خط وکتابت کی جس میں دو ’انا ‘ کا ٹکرا ؤ یہاں تک پہنچا کہ مودودی صاحب کو یقین ہوگیا کہ اب یہ قابو سے باہر جا چکے ہیں، اب ان کی فہمائش ممکن نہیں رہی اور ان کو یہ یقین ہوگیا کہ مودودی صاحب کے پاس میرے اشکال کا جواب نہیں ہےـ نتیجتاً 15سال کے بعد وہ جماعت سے علیحدہ ہوگئےـ پھر ان کی منزل ندوةالعلما کا ادارہ تحقیقات بھی بنا اور اس زمانے میں مولاناابو الحسن علی ندوی صاحب کی شخصیت کے بعض پہلو سے اپنے تاثرکا بھی اظہارفرمایاـ پھر جلدہی ان کی منزل مولانا اسعد مدنی کی جمعیت علماء بن گئی اور وہ ہفت روزہ ’الجمعیہ ‘کے ایڈیٹر بنائے گئے جبکہ روز نامہ الجمعیہ کے ایڈیٹر ناموراوربزرگ صحافی جناب عثمان فارقلیط صاحب تھے۔ـ
ہفت روزہ الجمعیہ وحید الدین خاں صاحب کی ادارت میں بیحد مقبول ہوا،اس کے پہلے صفحہ پر کسی واقعہ یا خبر سے ان کے نتیجہ اخذکرنے کا انداز نرالا تھا، اس کے پڑھنے کیلئے نوجوانوں میں خاص طور پر اشتیاق پایا جاتاتھا، اس سے ذوق عمل پیدا ہوتا اور ذوق کو جلا ملتی ـ وہ ریڈر ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع شدہ بعض خبروں سے بہترین اور تعمیری نتائج مستنبط کرتے تھے اس نے خاص طور پر ہفت روزہ کو کافی مشہور و مقبول بنادیا تھاـ اور جمعیت سے قریب ہونے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں بھی ان کی آمد ورفت کا دروازہ کھل گیاتھا،چنانچہ استاذ گرامی مولانا وحید الزماں کیرانوی صاحب کی معیت میں دارالعلوم کی دار الحدیث میں ان کی تقریریں بھی ہونے لگیں ۔ـ
انہوں نے مولانا کیرانوی صاحب سے انٹرویو بھی لیا تھاـ پھر جمعیت سے بھی الگ ہوکراپنی سابقہ ڈگر پر آگئےـ ان کی کتابوں میں ’علم جدید کا چیلنج‘بیحد مقبول ہوئی، جو ادارہ تحقیقات سے شائع ہوئی تھی اور اس کا عربی ترجمہ ’الاسلام یتحدی‘ بھی عرب دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا،جس میں ان کے لائق بیٹے ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کی کوششوں کو بھی دخل ہے جن کے لیبیا اور مصر کے علمی وثقافتی حلقوں سے تعلقات اچھے تھےـ۔
کرنل معمر القذافی کی ’ الکتاب الاخضر ‘کے اردو ترجمہ نے ان کو بڑی حد تک کسی کا ماتحت رہ کر یا کسی ادارہ سے وابستہ ہو کر کام کرنے کی ضرورت سے بے نیاز کردیاتھاـ۔ نظام الدین میں ان کی کوٹھی ہی ان کے آفس اور الرسالہ کے دفتر اور ان کی تصنیفات کے دارالنشر کیلئے کافی تھی۔ ـ
انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جن میں سیرت کی کتاب قرآن کریم کی عوامی اور دعوتی انداز کی مختصر تفسیر اور تجدید دین وغیرہ کے موضوعات شامل ہیں ۔ـ انہوں نے تبلیغی تحریک کے نام سے بھی ایک رسالہ لکھاہے اور تبلیغی جماعت کے بعض بزرگوں سے وہ ملتے بھی رہتے تھے۔ـ
جماعت اسلامی اور عصر حاضر کی دوسری اسلامی سیاسی تحریکوں اخوان وغیرہ کے سخت ناقد تھے۔
مودودی صاحب کی چار بنیادی اصطلاحوں پر تنقید میں ان کو سبقت حاصل ہے بعد میں دین کی تفہیم و تشریح کے عنوان سے جو کچھ لکھاگیا ہے، وہ ان کی کتاب پڑھنے کے بعد ہی لوگوں نے لکھا ہے۔
ان کی کتاب ’تعبیر کی غلطی ‘کے نام سے چھپی تھی ـ شروع میں مودودی صاحب کے ساتھ خط وکتابت کی تفصیل ہےـ۔
پچھلے سالوں میں ان کا رویہ مسلم مسائل میں بے حد سلبی ہوگیا تھا،ـ فسادات وغیرہ میں مسلمانوں ہی کو ذمہ دار ٹھہرانے کا رویہ انہوں نے اپنالیا تھا، اس لئے مسلم دشمنوں کے حلقہ میں ان کی پذیرائی بڑھ گئی تھی،جو کسی طرح ان کے شایان شان بات نہیں تھی،ـ ان کی تحریریں عام طور پر حشو و زوائد سے پاک اور اچھی نثر کا نمونہ ہواکرتی تھیں۔ ـ انہوں نے بہت سے نزاعی مسائل بھی چھیڑے ہیں،کسی زمانے میں ایک طویل مضمون تاریخ ندوہ سے شبلی کے اخراج کے عنوان سے لکھ دیا۔ـ
تفسیر کا نام ہی انہوں نے ایسا رکھا ہے جس کے طرف علمی نکات کے خوگر علما کی توجہ نہیں ہوسکتی۔ ـ
تجدید دین کا تخیل بھی مودودی صاحب کی طرح علما کی تنقید کی زد پر رہاہےـ۔
کوئی مستقل تحریک برپا کرنے میں تو وہ کامیاب نہیں رہے لیکن انہوں نے خود کو مودودی صاحب کی سطح کے قائد اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کے درجہ کے داعی سے کم تر کبھی نہیں سمجھا،بلکہ اپنے آپ کو استثنائی قسم کا داعی مہدی اور مسیح کے طرز کا مصلح بناکر بھیجے جانے کا اشارتاً ذکر کرتے رہے۔ـ انہوں نے تحریری کام بہت کیا ہے اورفکری غلطیاں بھی بعض بڑی اور پہاڑ جیسی ہیں ـ۔ دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہےـ ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت نصیب کرے اور دین کی غلط سمجھ سے لوگوں کو محفوظ رکھےـ آمین
خان صاحب سے اپنی بعض ملاقاتوں کا ذکر میں نے النخیل کے’احوال مطالعہ‘ نمبر میں کیا تھا ان کی تفصیل وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ـ
ان کی گفتگو کا انداز عموماً فلسفیانہ، باتیں بیشتر ناقدانہ اورتحریریں خوبصورت ہی نہیں بڑی حد تک ساحرانہ ہوتی تھیں۔ ـ مولانا وحید الدین خاں نے طویل عمر پائی 1925 میں پیدا ہوئے2021میں وفات پائی اور ہوش سنبھالنے کے بعد سے وفات تک برابر لکھتے ہی رہے۔ـ
ان کی لکھی ہوئی کتابوں اور تحریروں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرلینا چاہیے :
1 ’علم جدید کا چیلنج‘جسے بعد میں ’مذہب اور جدید سائنس‘ کے نام سے شائع کیا گیا اور اس کا عربی ترجمہ ’الاسلام یتحدی‘ کے نام سے متعارف ہے وہ مفید ہے اور اسی سلسلہ کی بعض دوسری تحریریں بھی جن میں استدلال کا نیا انداز اختیارکیا گیا ہے۔ـ
2 وہ کتابیں جو انہوں نے مہدی مسیح دجال اور بعض دیگر علامات قیامت کے بارے میں لکھی ہیں، بعض نصوص کا انکار کیا اور بعض کی ایسی تاویل کی ہے جو شرعی اصولوں کے قطعی خلاف ہے ۔ـ
اسی طرح وہ تحریریں جو غلام احمد قادیانی جیسے کذاب اور دیگر مدعیان نبوت کے بارے میں لکھی ہیں وہ انتہائی گمراہ کن ہیں ان سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے۔ـ
3 وہ تحریریں جن میں اسلام کی تعلیمات کے بعض حصوں کو ناقابل عمل اور عیسائیت کی بعض تعلیمات کو ان پر ترجیح دینے کی بات کہی گئی ہے،وہ بھی دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ’ان الدین عند اللہ الاسلام ‘
4جہاد کے الغا اور ہر حال میں دشمنوں کے ظلم کو برداشت کرنے کی تلقین فلسطینیوں کو اپنے حق سے یہودیوں کے حق میں دست بردار ہونے کے بارے میں یہی کہا جاسکتا کہ اس کااسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہےـ ان کی رائےہے:
ومن یھن یسھل الھوان علیه
وما لجرح بميت ايلا م
اب وه اس دنيا ميں نہیں رہےـ دعا ہے کہ رب کائنات ان کی لغزشوں کو معاف کر ے اور جو اچھے کام انہوں نے کئے ہیں ان کو قبولیت سے نوازے اور امت مسلمہ کو فکرو عقیدہ کی گمراہیوں سے محفوظ رکھےـ۔
مرنے والے کے محاسن علمی اوصاف یااخلاقی خو بیوں کےذکر کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے لو گ جن کی غلطیاں متعدی ہوں اور لوگوں کی طرف سے مبالغہ آمیز تحریریں آرہی ہوں اور ان کے بارے میں سکوت سے دین کے نقصان کا اندیشہ ہو وہاں غلطیوں سے لوگوں کو آگاہ بھی نہ کیا جائےـ پھر توعلم الجرح والتعدیل کی اساس ہی منہدم ہو جائے گی۔