تحریر : مسعود جاوید
اظہار رائے کی آزادی آپ کا حق right ہے لیکن اگر اس سے آپ کو اور آپ کے لوگوں کو ذلیل وخوار ہونا پڑے تو اس حق کے مقابل فرض duty کا خیال رکھنا چاہیے۔ فرض یہ ہے کہ آپ اپنی قوم کی رسوائی کا باعث نہیں بنیں۔
جب ٹی وی ڈیبیٹ میں اینکر سے لے کر مشارکین پینلسٹ تک نہ صرف آپ کے لئے بلکہ آپ کے ساتھ پوری ملت کے لئے ہتک آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات تو حد سے گزرتے ہوئے نقاب برقع تعلیم اور آزادی نسواں کی آڑ میں آپ کی بیگم اور گھر کی خواتین بھی رکیک جملوں کی زد پر آتی ہیں، تو ہم سب کو تکلیف ہوتی ہے، غصہ آتا ہے اور یہی سمجھ میں آتا ہے کہ چند ہزار روپے کے عوض آپ خواتین خانہ کے خلاف بیہودہ تبصرے سنتے ہیں اور ایک طرف پوری قوم کو بلا واسطہ یا بالواسطہ گالیاں دلواتے ہیں اور دوسری طرف ہندو مسلم منافرت کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
چینل باز’’اسلامی اسکالر‘‘، ’’دھرم گرو‘‘ ، ’’مولانا‘‘ وغیرہ کی باتیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے وضع قطع سے بھلے ہی ’’اسکالر‘‘ ، ’’دھرم گرو یا مولانا‘‘ نظر آتے ہوں حقیقت میں موضوع سے متعلق بنیادی معلومات سے بھی وہ نابلد ہوتے ہیں۔ چینل والوں کو ایسے ہی لوگوں کی تلاش ہوتی ہے جو اپنی کم علمی اور غیر متعلق باتوں سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا موقف کم زور ہے۔
افغانستان میں موجودہ صورت حال پر ، ٹی وی چینل والے اچانک بعض علماء کا انٹرویو اور بعض مولویوں اور غیر مولیوں کا بائٹ لیتے ہیں۔ یہ بے چارے افغانستان کے قبائلی نظام؛ کتنے قبیلے ہیں کتنے مسلک ہیں جیو پولیٹکل صورت حال کیا ہے، بڑی عالمی طاقتوں کی رسہ کشی ، معلنہ ہدف اور پس پردہ مقاصد کیا ہیں ، سے ذرہ برابر واقفیت نہیں ہوتی ہے پھر بھی ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہونے کی اندرونی خواہش یا کسی اور محرک کی وجہ سے بائٹ دے کر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب کرتے ہیں، اس لئے کہ جب ان کو بطور مسلم نمائندے وہ پیش کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کی جہالت اور حماقت ہر مسلمان پر منطبق کیا جائے گا۔
اگر یہ حضرات یہ کہتے ہوئے معذرت چاہ لیں کہ ہماری تعلیمات اور معلومات فقط زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی ہوتی ہیں اس لئے ایسے سیاسی موضوعات پر بات کرنے کے ہم اہل نہیں ہیں، تو ان کی عزت میں بٹہ نہیں لگتا اور نہ فرقہ پرست عناصر کو لام بند پولرائز کرنے اور ہونے کا مواد ملتا۔
میں نے بارہا لکھا ہے اور پرجوش لکھاریوں اور فارغین مدارس کو متنبہ کیا ہے کہ آزادی اظہار رائے میں کم از کم دو مقامات ایسے ہیں جہاں سرخ لکیر تجاوز کرنے کی اجازت دنیا کا کوئی ملک نہیں دیتا۔ وہ ہیں ملک کی خارجہ پالیسی اور دفاعی اسٹراٹیجی اور پالیسی۔ ان دونوں موضوعات پر بہت محتاط انداز میں اور حقائق پر مبنی لکھنا اور بولنا چاہیے۔
سوشل میڈیا نے ہر ایک شخص کو بے لگام ’’صحافی‘‘ بنا دیا ہے۔وہ لکھنا چاہیں خوب لکھیں مگر ہوم ورک کرنے کے بعد۔ وہاٹس ایپ پر فیک نیوز، سیاق سباق سے کاٹ کر اپنے مطلب کی باتیں ذہن میں رکھ کر بنائے گئے ویڈیو کلپس کی بنیاد پر اپنی رائے بنائیں اور نہ سوشل میڈیا پر لکھ کر لائک کرکے اور شیئر کر کے دوسروں کو گمراہ کریں۔
بعض اوقات ایسے ویڈیوز دیکھ کر انفعالی کیفیت سے دوچار ہونا فطری ہے ایسے میں altnews وغیرہ کئی سائٹ ہیں جن کے توسط سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔
خلاصہ تحریر یہ ہے کہ لکھنا ایک بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے اس لئے لکھنے سے پہلے متعلق موضوع پر مختلف معتبر مصادر کو پڑھیں اور جہاں محسوس ہو کہ بادی النظر میں خبر خلاف قیاس ہے یا لگے کہ خبر گمراہ کن ہو سکتی ہے تو تصدیق کرنے والے سائٹس سے مطمئن ہو لیں۔
جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے طلبہ تحریک کا کابل پہنچ کر حکومت کو اقتدار سے ہٹانا اور پورے ملک پر قابض ہونے کا اعلان کرنا ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا ایک پہلو ہے۔ کسی کے قابض ہونے سے مہذب دنیا میں کوئی قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔ ملکی امور کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی ضرورت ہوتی ہے داخلی طور پر وہاں کے شہریوں کی اکثریت کا اس نئی حکومت کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے لئے قابض تحریک و تنظیم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ :
1- وہ مخالفین اور معاندین تک کو بھی عام معافی دے۔ یہ اچھی بات ہے کہ نئی حکومت نے اس کا اعلان کیا ہے۔ دنیا کو عملی طور پر اس اعلان کے نتیجے کا انتظار ہے۔
2- ملک کے ہر طبقہ کی نمائندگی پر مشتمل حکومت کی تشکیل کرے یا تائید حاصل کرے۔
3- بین الاقوامی برادری کا اعتماد حاصل کرے اور سفارتی ، ثقافتی اور تجارتی تعلقات قائم کرے۔
4- اقوام متحدہ کو اپنے اعلانات اور عہد وپیمان کی یقین دہانی اپنے عملی اقدامات سے کرائے۔ اقوام متحدہ کے تحت رفاہی کام کرنے والے اداروں اور دیگر بین الاقوامی انسانی خدمات کی ایجنسیوں اور ان کے اہل کاروں کو کام کرنے میں سہولیات فراہم کرے۔
5- ملک میں بلا تفریق قانون کی بالادستی کا اعلان اور عمل ہو۔
6- ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات جلد از جلد استوار کرے۔
7- بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر کے اپنے ملک کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا سرے سے عزم مصمم کرے۔ یہ اور اس قبیل کے اور کچھ اقدامات ہیں جو اس تنظیم اور اس حکومت کی معتبریت اور مصداقیت اقوام عالم میں طے کریں گے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)