شاہد صدیقی علیگ
مولوی سید محمد باقر دہلوی پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی کے بعد شہید ہونے والے پہلے صحافی ہیں، جو اپنے زور قلم سے کمپنی بہادر کے جور و ستم اور آزادی کے لیے عوام کو بیدار کر رہے تھے جن کی بلیغ کا وشوں سے ہرکس وناکس تخریب کار انگریزوں سے نتیجہ خیز لڑائی کے لیے راغب ہوگیا، مگر جس کی سزا انہیں اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔
محمد باقر 1780ء میں دہلی کے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے جن کے والد مولوی محمد اکبر علی ایک مذہبی اسکالر تھے، والد ماجد نے ہی مروجہ دستور کے مطابق گھر پر ابتدائی تعلیم دی جو اردو، فارسی،عربی و دینیات پر مشتمل تھی، انہوں نے جلد ہی ان پر دسترس حاصل کی، مزید تعلیم کے لیے 1825ء میں دہلی کالج کا رخ کیا اور تکمیل کے بعد وہیں 1828ء میں فارسی کے استاد بن گئے، جہاں انہوں نے چھ سال خدمات انجام دیں،علاوہ ازیں محکمہ محصول میں تحصیلدار بھی رہے، لیکن انہیں کہیں قلبی سکون میسر نہیں ہوا۔ اسی اثنا میں جب کمپنی حکومت نے 1834ء میں ’پریس ایکٹ‘ میں ترمیم کرکے عوام کو اخبار شائع کرنے کی اجازت دی تو انہوں نے صحافت کے میدان میں قسمت آزمائی کی۔
1834ء میں لتھوگرافک پریس خرید کر 12؍جنوری 1837ء میں ہفتہ وار ’دلی اردو اخبار‘ کے نام سے اشاعت شروع کر دی، جس کی ماہانہ قیمت 2 روپے تھی۔ کوئی اسے آدھے سال کے لیے 11 ؍روپے یا سالانہ 20 ؍روپے میں جاری کراسکتا تھا۔ جو تقربیاً 21؍سال تک جاری رہا۔ حالات کے مدنظر دوبا ر اس کا نام بھی بدلہ گیا۔ پہلی بار 3 مئی 1840ء کو اس کا نام تبدیل کر کے ’’دہلی اردو اخبار‘ رکھا گیا جبکہ دوسری بار 12 جولائی 1857ء کو دہلی اردو اخبار کا نام بدل کر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام پر ’’ اخبر الظفر‘‘ رکھ دیا گیا اور اخبار کو ہفتہ کی بجائے اتوار کو شائع کرنا شروع کر دیا۔ جس میں دلّی کے ساتھ ساتھ قرب وجوار کے علاوہ لکھنؤ، آگرہ، گوالیار، جھانسی وغیرہ کے واقعات سے آگاہی حاصل ہوتی تھیں۔ اخبار حقیقی معنوں میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس نے آزادی کی مشعل کو روشن کرکے ہندوستانیوں کو برطانوی راج کے خلاف ’کرو یا مرو‘ کا حوصلہ عطا کیا۔
10؍مئی 1857ء کو میرٹھ سے پہلی ملک گیر جنگ آزادی کے شعلوں کو ہوا دینے والے سپاہیوں نے جب 11؍مئی کو دلّی کی دہلیز پر دستک دی تو میر باقر کے دلّی اردو اخبار نے ا نقلاب کا ترجمان بننے میں دیر نہیں کی اور اپنے قلم سے قارئین کو ہر واقعہ سے باخبر کرنے کے ساتھ انہیں آزادی کی اہمیت اور غلامی کی لعنت سے بھی روشناس کرایا۔ 17 مئی 1857 کی اپنی رپورٹ میں دہلی اردو اخبار نے مجاہدین کی پیش قدمی کی تفصیلی رپورٹ پیش کی اور مسلسل تحریک آزادی کے بار ے میں مضامین لکھتے رہے۔
24؍مئی 1857ء مطابق 29 ماہ رمضان المبارک1273ھ روز یک شنبہ کے شمارے میں سپاہیوں کو ثابت قدم رہنے کے لیے لکھتے ہیں کہ: ’’جس طرح سلیمان اور سکندر جیسے عظیم شہنشاہ، چنگیز خان، ہلاکو اور نادر شاہ جیسے ظالم، افسانوی ہیرو اور بابا سب غائب ہو گئے تھے انگریز بھی ایک دن غائب ہو جائیں گے‘‘۔
انگریز اپنی حکومت کی پائیداری کے لیے ہندو اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا ضروری سمجھتے تھے لہٰذا انگریزوں نے جنگ آزادی کی شروعات میں ہی ایسے پوسٹر چسپاں کر دیئے تھے۔ جن میں کارتوسوں کی چربی کا حوالہ دیکر انقلابی مسلمانوں اور ہندوؤں میں تعرض پیدا کرنے کی تلقین کی گئی تھی کہ ’’یہ چربی صرف (گئو) کی تھی اس لیے مسلمان سپاہ نہ صرف ہندو باغیوں سے الگ ہوجائیں بلکہ ہمارے شریک ہوکر اہل ہنود کو قتل کریں۔‘‘
جس کے خلاف ہندو ومسلم اتحاد کے نقیب مولوی محمد باقر نے پوری شدت سے آواز اٹھائی اور ہندو اور مسلمان دونوں کو متنبہ کیا کہ: 14 ؍جون 1857 مطابق 21؍شوال المکرم1273ھ کے شمارے میں لکھا کہ ’’یاد رہے کہ جو ایسے وقت میں چُوکا اور تغافل کیا اور دھوکہ میں آیا اور نصارا کی ترغیب اور لجاجب اور وعدہ وعید یا رعب سابق پر فریفتہ ہوگیا تو انجام کو دین و دنیا میں پشیمانی حاصل کرے گا اور پھر پچھتاوا کچھ کام نہ آوے گا، سب آخر کو سر پر ہاتھ رکھ کے رو دیں گے۔‘‘
عوام کو نوآبادیاتی حکمرانوں کے سازشوں اور ہتھکنڈوں کے خلاف خبردار کیا تو محمد باقر ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگے تو وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تدابیر واضع کرنے لگے۔ آخرکار وہ گھڑی بھی آگئی کہ جب ننگ وطن، ننگ دین کی کارستانیوں کے سبب انگریز دلّی کے کشمیری گیٹ کو توڑ کر شاہجہان آباد میں داخل ہو گئی اور انہیں اپنی فتح یابی نظر آنے لگی۔
ایسے موقع پرانگریزوں نے اپنے قلم سے جہاد کرنے والے مولوی محمد باقر کو 14 ستمبر 1857ء کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا اور انہیں 16 ؍ستمبر کو میجر ولیم اسٹیفن رائیکس ہوڈسن (Major William Stephen Raikes Hodson) کے سامنے پیش کیا گیا۔ جس نے بغیر مقدمہ چلائے مولانا باقر کو اپنی گولی کا نشانہ بناکر شہید کر دیا۔ تاریخ جنگ آزادی ہند اس سرفروش اردو صحافی مولوی باقر کے تذکرہ بغیر کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے۔
(بشکریہ: قومی آواز)