مولانا عبد الحمید نعمانی
2002ءکے بعد سے نمایاں ہو کر ملک و معاشرہ کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے ، اس کے کئی سارے اسباب ہیں ، کسی بڑے نصب العین اور ثمر آور مقاصد کو مدنظر رکھے بغیر جس طرح کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں ، وہ اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوسکتے تھے ۔ جس شکل میں ہمارے سامنے ہیں ، بھارت کے تناظر میں ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ برہمن وادی ہندوتو کا سماج اونچ نیچ پر قائم، دیگر کی تحقیر و نفر ت سے زندہ ہے ۔ جب اپنے دائرے میں شامل مختلف طبقات سے تحقیر و تذلیل میں اپنا تفوق اور زندگی تصور کرتا ہے تو کئی لحاظ سے مختلف اور اپنے دائرے کے باہر کے طبقات و روایات سے زیادہ ہمدردی و انصاف کی توقع ، بے جا امید کے زمرے میں شمار ہوگی ۔
آزادی سے پہلے ہی فرقہ وارانہ خطوط پر ہندستانی سماج کی تقسیم کا آغاز بڑی تیزی سے ہو گیا تھا۔ تاہم ملک کی آبادی کے نہج سے ایک طرح کا توازن قائم تھا۔ لیکن تقسیم وطن کے بعد یہ توازن پوری طرح ختم ہوگیا اور آبادی کی ہیت پوری طرح بدل کر رہ گئی جو لیڈر اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کے متعلق کسی قدر ہمدردی و مراعات کا جذبہ رکھتے تھے۔ گاندھی جی جیسے رہ نما اقلیت کو اکثریت میں کمزور ،بے انصافی کی شکار سمجھ کر حمایت کرنے کو انصاف و انسانیت کا تقاضا سمجھتے تھے ۔ تقسیم وطن کے ساتھ ، تیزی سے گزرتے وقت میں صورتحال بڑی حد تک بدل گئی ، گاندھی جی ایک جارح فرقہ پرست ہندو وادی ناتھو رام گوڈسے کی گولیوں کا شکار ہوگئے تو دوسری طرف فرقہ پرست ہندوتو عناصر اور پارٹیوں کا سیکولرازم اور فرقہ وارانہ اتحاد میں یقین و اظہار کرنے والے لیڈروں اور پارٹیوں پر دباؤ و اثر بڑھتا چلا گیا، حالاں کہ آزادی سے پہلے یہ فرقہ پرست ہندو وادی لیڈروں نے مسلم لیگ کے ساتھ سرکار بنانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی تھی اور جناح اور مسلم لیگ کے لیے یہ ماحول فراہم کیا تھا کہ ہندو مسلم ایک ساتھ برابری اور امن وانصاف کے ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں اور انگریزوں کے بھارت سے جانے کے بعد مسلم اقلیت کو غلام بناکر رکھیں گے اور اونچ نیچ پر مبنی چار طبقاتی نظام کے حامل ہندوتو وادی،مسلمانوں کو شودروں کی حالت میں پہنچادیں گے۔ کیوں کہ برہمن وادی کسی نہ کسی کے ساتھ نفرت و تحقیر کا سلوک روا رکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ علیحدگی و تذلیل پسندی کی ذہنیت و روایت نے گزرتے دنوں کے ساتھ علیحدہ وطن کے لیے ماحول بنانے میں ہندو وادی فرقہ پرست عناصر کا بڑا رول تھااور تقسیم کے بعد پیدا شدہ حالت سے آج تک وہ جناح کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، بر صغیرمیں جس طور سے ہندو مسلم اور مختلف فرقوں کی آبادیاں ہیں ، ان کا سوفی صد فرقہ وارانہ خطوط پر تبادلہ عملاً ممکن تھا، ایسی حالت میں فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لیے تقسیم کوئی پائیدار راستہ نہیں تھا۔
یہ حقیقت جمعیة علماءہند اور مومن کانفرنس وغیرہ کے بابصیرت و بصارت اکابر کے پیش نظر تھی ۔ لیگ اور اس کے حامی عناصر نے اس پر سرے سے کوئی توجہ نہیں دی کہ مسائل و مشکلات کا سامنے اقلیت والے علاقوں میں ہوتا ہے نہ کی اکثریتی علاقے میں ، 1940ءکے لاہور قرار داد کے ساتھ ہی ان کی طرف سے تقسیم اور علیحدہ وطن کی حمایت کا کوئی مطلب اور عقلمندی نہیں تھی جوملک کے اقلیتی خطے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ہاں ان کے لیے علیحدہ وطن ایک معنی رکھتا تھا جو ہندو اکثریت سے آزاد ، ایک مسلم غلبے والے وطن میں اپنے نظریے کے مطابق زندگی کے خواہاں تھے ، بھارت میں رہ جانے والے اپنی اپنی جگہوں پر رہائش پذیر ، چھاگلہ جیسے لیگی اور جناح کے قریبی لوگوں کے لیے بھارت والے حصے میں رہنے کا مطلب ،منافقت اور دہری زندگی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ہے ۔ ایسے لوگ خوشامدی ، شاہ سے زیادہ شاہ پرست اور مخالف عناصر کی نظر وں میں مقبول بننے کی کوششوں میں اس کمیونٹی کے کاز کے خلاف سرگرم عمل ہوجاتے ہیں جس کا وہ بہ ظاہر نمائندہ سمجھے اور نظر آتے ہیں ، یہی کچھ کردار چھاگلہ نے ادا کیا، تاکہ ہندوتوادیوںکے منظور نظر بن جائیں احساس کمتری و جرم میں مبتلا ہونے کے سبب مظلوموں و اقلیتوں کے ساتھ مضبوطی سے وہ کھڑے نہیں رہ سکے، چھاگلہ، لیگی اور جناح کے ساتھ تھے۔ راجا محمود آباد اور مولانا آزادسبحانی بھی مسلم لیگ کے ساتھ تھے لیکن تقسیم وطن کے بعد بھارت میں ہی رہ گئے ۔
اس قسم کے لوگ ہندو تو عناصر کانگریس وغیرہ کے بھی دباؤ میں رہتے ہوئے ہندو فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے حقوق و اختیارات کے لیے جدو جہد ترک کرکے خود کو ضرورت سے زیادہ سیکولر سٹ دکھانے میں زیاہ دلچسپی رکھتے تھے ۔ اس کی ایک نمایاں مثال چھاگلہ ہیں ، وہ کانگریس کی وزارت میں شامل ہو کر وزیر تعلیم بن گئے تھے ۔ لیگ سے دوری اور خود کو غیر فرقہ پرست دکھانے کے چکر میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنایا۔ اور کانگریس نے بھی ہندوتو کی شبیہ ابھارنے اور مسلمانوں کی منہ بھرائی کے الزام سے بچنے کے لیے ہر ایسے کام کو کیا جس سے لگے کہ وہ سب کے ساتھ ہے ، چھاگلہ کا تعلق، جناح اور لیگ سے ہونے کے باوجود کانگریسی وزارت میں رہتے ہوئے بھی سنگھ میں نیچے سے اوپر تک بڑے مقبول و معتبر رہے ہیں ، سنگھ کے لٹریچر میں ان کا نام بہت عزت سے لکھا بولا جاتا رہا ہے ، اس کی وجہ بہت صاف ہے ۔ اس سیاسی بھٹکاؤ اور ہندوتو فرقہ پرستی کے اثرات کے تحت ہندو تو وادیوں نے جی بھر کے فائدہ اٹھایا۔ دیگر پارٹیاں بھی ، جو کمیونزم ،دلت تحریک اور سماج واد وغیرہ کے حوالے سے سامنے رہی ہیں ، وہ ہندوتو وادی پارٹیوں اور تحریکوں کا موثر طور سے مقابلہ نہیں کر سکیں اور گزرتے دنوں کے ساتھ وہ جن سنگھ ، سے بنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے جگہیں خالی کرتی چلی گئیں ۔ جس کا نتیجہ اب سب کے سامنے ہے ۔
کانگریس سمیت مختلف پارٹیاں ،الگ الگ نعروں اور سیاسی تحریکوں اور سرگرمیوں کے ساتھ سامنے آئیں لیکن برہمن وادی ہندو تو کی تحریکات کی پارٹیوں /تنظیموں کی طرح تسلسل اور مضبوط نظر یاتی مقاصد کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکیں ۔ اور زیادہ دور رس اور دور تک رسائی میں ناکام رہیں ، ڈاکٹر امبیڈکر ،پیری یار کی تحریک ، فرقہ پرست ہندو تو وادیوں کے خلاف ایک ملک گیر تحریک تھی ، تاہم وہ تاریخ کے مختلف ادوار کی طرح ، آزادی کے بعد ملک کی بڑی اکثریت کو جارحانہ ہندو تو کے ساتھ جانے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ پیری یار کی دراوڑی تحریک کا اثر ملک کے دیگر حصوں میں بھی کچھ نہ کچھ ہے لیکن عملی طور سے جنوبی ہند کے کچھ محدود دائرے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ یہی کچھ حال کمیونسٹ پارٹیوں کا رہا ہے، انھوں نے ایک سطح پر ہندو تو وادی فرقہ پرستی کا نظریاتی لحاظ سے مقابلہ کیا اور سیاسی لحاظ سے بھی 1952ء1967، ء 2004 کے انتخابات میں ان کی نمائندگی و موجودگی کو محسوس کیا گیا تھا۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ کمیونسٹ پارٹیاں بھی ہندوتو کی حامل پارٹیوں کے سامنے بونی ہوتی چلی گئیں 2004ءکی 64 نشستوں کے مقابلے آج لوک سبھا میں صرف 5کی تعداد رہ رہ گئی ہے ۔ مغربی بنگال میں مسلسل سات بار حکومتیں بنانے والی کمیونسٹ پارٹیاں وہاں بھی اب پوری طرح ان کا صفایا ہو گیا ہے ۔ وہ بھارت اور اس کے عوام کے رجحانات و ضروریات پر کھری اترنے میں ناکام رہیں ۔ دلت اور سماج واد کی تحریکات کی حامل پارٹیاں ، بھی ہندو تو وادی عناصر اور پارٹیوں کے سامنے ایک طرح سے ڈھیر ہو گئی ہیں ، جے پر کاش نارائن ، رام منوہر لوہیا، اچاریہ نریندر دیو، جیوتی با پھولے ، امبیڈکر ، کر پوری ٹھاکر ، کانشی رام ، وغیرہم کے نام ، کام بھی کام نہیں آرہے ہیں ۔ بلکہ ان کے ناموں کا استعمال ہندو تو وادی تنظیموں اور پارٹیوں نے زبردست طریقے سے کیا۔ مایاوتی ، رام بلاس پاسوان ، ادت راج ، رام اٹھاولے توایک طرح سے ان کے پالکی بردار ہو کر رہ گئے ، یہ سارا کچھ نظریاتی جڑوں سے دور اور عوام تک مطلوبہ سطح پر رسائی میں ناکامی سے ہوا ۔ مذکورہ قسم کے تمام اشخاص اور پارٹیاں سیاسی بھٹکاؤ ا ور ہر حال میں اقتدار میں بنے رہنے کی خواہشوں کے نتیجے میں ہوا ہے اور جب تک سیاست میں یہ بھٹکاؤ اور بھٹکاؤ کی سیاست جاری رہے گی تب تک موجودہ صورت حال میں کسی بنیادی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)