افتخار گیلانی
کورونا وائرس کی دوسری خوفناک لہر سے نپٹنے میں ہنوز ناکامی اور مغربی بنگال کے صوبائی انتخابات میں شکست نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے حواریوںکی چولیں ہلا کر رکھ دیں ہیں۔ بین الاقوامی میڈیکل جریدے لانسٹ نے اپنے اداریہ میں خبردار کیا ہے کہ اگست تک بھارت میں دس لاکھ افراد کورونا کی وبا کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ یعنی مئی اور اگست کے بیچ میں ساڑھے 7 لاکھ سے بھی زیادہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ عالمی میڈیا تو ویسے ہی کئی ہفتوں سے اس ابھرتی ہوئی سپر پاورکے حالات اور اس کے حکمرانوں پر افسوس کا اظہارکر رہا تھا، ملک کے اندر بھی مین اسٹریم میڈیا ، جو حکومت کے خلاف چوں بھی نہیں کرتا تھا، اب مودی اور اس کی ٹیم کی کارکرگی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ جریدہ انڈیا ٹوڈے کی حالیہ اشاعت کے کور پر بھارت کو ناکام ریاست Failed State قرار دیا گیا ہے۔
چند سال قبل تک یہ ٹرم عام طور پر پاکستان کے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی تھی۔ لندن میں جی ۔7ممالک کی میٹنگ کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے تسلیم کیا کہ بھارت کا صحت عامہ کا شعبہ بری طرح بے نقاب ہوگیا ہے۔ مگر اسی سانس میں انہوں نے پچھلی حکومتوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں نے متواتر صحت عامہ کے بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کے 1.5فیصد سے آگے بڑھنے نہیں دیا ، جو اب 1.8فیصد ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ پچھلے سات سالوں سے، جب سے مودی بھار ت کے سر پر سوار ہے ، صحت عامہ کے بجٹ کو بڑھانے، اسپتال بنوانے کے بجائے گجرات میں امریکہ کے آزادی مجسمہ کی طرز پر 30بلین روپے سردار پٹیل کے مجسمہ کو بنوانے پر آخر کیوں خرچ کئے گئے؟ پچھلے سال ہی کورونا کی پہلی لہر کے بعد وزارت صحت نے سالانہ بجٹ کیلئے 1,218ٹریلین روپے رقم کی مانگ کی تھی، مگر جب اسی سال جنوری میں پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا گیا ، تو اس وزارت کو بس 712.6بلین روپے دئے گئے، جو ان کے مطالبہ سے 58.48فیصد کم تھے۔
اسی طرح پچھلے سال کورونا کی وباکے دوران ہی انگریزوں کی بنائی ہوئی نئی دہلی کے وسط میں 200بلین روپے کی لاگت سے ایک نئی کیپٹل سٹی بنانے کا فرمان جاری ہوکر اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ امید کی جارہی تھی، کورونا کی وبا نے جس طرح ملک کے طول و عرض میں تباہی مچا ئی ہوئی ہے، اس غیر ضروری پروجیکٹ پر کام روک کر ، اس پر خرچ کی جانی والی رقوم صحت عامہ یا ویکسین یا آکسیجن خریدنے پر صرف کی جائے گی۔ مگر دہلی میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت نے اس کو ترجیحی پروجیکٹ قرار دے کر پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا۔
دارالحکومت دہلی میں جہاں اس وقت ایک آفت کا سا سماں ہے، اس پروجیکٹ پر کام زور و شور سے جاری ہے۔ اس پروجیکٹ میں ایک نئے پارلیمنٹ ہاوس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ، وزیر اعظم کی نئی سرکاری رہائش گاہ، نائب صدر کی رہائش گاہ و دفتر، وزارت دفاع،خزانہ، داخلہ و دیگر وزارتوں کی نئی بلڈنگیں تعمیر کرانا شامل ہے۔ 1911میں جب انگریزوں کو دارلحکومت کولکتہ سے دہلی منتقل کرنے کا خیا ل آیا ، تو انہوں نے چوٹی کے دو آرکیٹیکٹوں ایڈورڈ لیوٹن اور ہربرٹ بیکر کو نئی دہلی کو ڈیزائن کرنے پر مامور کیا۔ انہوں نے یورپی، ہندوستانی اور اسلامی فن تعمیرکے ایک حسین امتزاج کو عملی شکل دیکر وائسرائے ہاوس (جو اب صدارتی محل ہے)، سائو تھ بلاک، جس میں وزیر اعظم ، وزارت خارجہ اور دفاع کے دفاتر ہیں اور اسکے سامنے اسی شکل کی ایک اور وسیع و عریض بلڈنگ نارتھ بلاک جس میں وزارت خزانہ اورداخلہ کے دفاتر ہیں، تعمیر کرائیں۔ معروف مصنف خوشونت سنگھ کے والد سر شوبھا سنگھ لارڈ لٹن کے ساتھ ان بلڈنگوں کی تعمیر میں بطور ٹھیکہ دار کام کررہے تھے۔ 1931میں باضابط طور پر ان بلڈنگوں میں دفاتر منتقل ہوگئے۔ مودی کا کہنا ہے کہ یہ عمارتیں اب پرانی ہو چکی ہیں، اور بھارت کے سپر پاور امیج کے ساتھ میل نہیں کھاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ تاریخ میں اپنا نام شاہجہاں، کنگ جارج، ڈیوک آف کناٹ کے ساتھ لکھوانے پر بضد ہیں۔
برطانوی معماروں نے بھارت کے پارلیمنٹ ہاوس کو ایک گول دائرے والی بلڈنگ کا روپ دیا تھا۔ مودی کے معماروںنے اب 64,000 مربع میٹر پر محیط اس نئی تعمیر کی جانے والی بلڈنگ کو تکون کی شکل دی ہے ۔ان کا ارادہ ہے کہ 2022 میں بھارت کی آزادی کی 75سالہ تقریبات اسی نئی بلڈنگ میں منعقد ہوںگی۔ نارتھ بلاک اور سائوتھ بلاک کو میوزیم میں تبدیل کیا جائے گا۔ نائب صدر کی موجودہ رہائش گاہ ، جس میں دراصل ابو الکلام آزاد کی رہائش گاہ ہوتی تھی ، کو مسمار کیا جائے گا، اور ایک نئی بلڈنگ پارلیمنٹ سے متصل تعمیر کی جائے گی۔ وزیر اعظم بھی اپنے لئے سائوتھ بلاک اور کابینہ سکریٹریٹ سے متصل ایک نئی رہائش گاہ تعمیر کرا رہے ہیں، کیونکہ لوک کلیان مارگ پر 12ایکڑ پر محیط پانچ بلڈنگوں پر مشتمل وزیر اعظم کیلئے مخصوص رہائش گاہ ان کو راس نہیں آرہی تھی۔ ویسے تو 1947میں آزادی کے فوراً بعد ہی برطانوی فوج کے کمانڈر ان چیف کی رہائش گاہ و دفتر تین مورتی ہائوس کو وزیر اعظم کا دفتر اور رہائش گاہ ڈیکلیر کیا گیا تھا۔
جواہر لال نہرو اسی بلڈنگ میں مقیم تھے، مگر ان کی موت کے بعد ان کے جانشین لال بہادر شاستری نے اس بلڈنگ میں منتقل ہونے سے منع کردیا اور اس کو نہرو کی یاد میں میوزیم اور لائبریری میں تبدیل کروایا۔ وہ بدستور اپنے ہی مکان میں مقیم رہے۔ 1984میں راجیو گاندھی کے برسراقتدار آنے تک وزیر اعظم کیلئے کوئی مخصوص رہائش گاہ نہیں ہوتی تھی۔ نئی بلڈنگیں بنوانا اور اپنی چھاپ چھوڑنا ، مودی کا خاصہ ہے۔ 2001 میں جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے، توانہوں نے چیف منسٹر کی رہائش گاہ سے متصل آٹھ دیگر بنگلے ایکوایر کراکے ان کو وزیر اعلیٰ کے بنگلے کے احاطہ میں شامل کروایا۔ کروڑوں روپے بنگلہ کی ازسر نو تعمیر میں خرچ کروائے۔ بقول شکتی سن گوئل ، جو گجرات کے ایک سابق وزیر ہیں، اس ہائوس میں تو ایک کمرہ شیش محل جیسا بنوایا جس میں چاروں طرف اور فرش پر بھی شیشے لگے ہوئے ہیں۔اس سے متصل سیکرٹریٹ کے پاس ہی وزیر اعلیٰ کا دفتر بھی ہوتا تھا۔ اس کو بھی مسمار کرواکے نیابنوایا۔ مگر شاید مودی کو ان کے حواریوں نے نہیں بتایا ہے کہ تاریخ میں جس کسی نے بھی دہلی کا نیا شہر تعمیر کرایا ہے، اس کا زوال آیا ہے۔
مصنف و مورخ ولیم ڈالرمپل اپنی کتاب City of Djinnsمیں لکھتے ہیں کہ فارسی میں کسی بزرگ کی پیشنگوئی ہے کہ جو بھی دہلی کا نیا شہر بنائے گا وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ پیشن گوئی یا شراپ ہزاروں سالوں سے سچ ثابت ہو رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پانڈوئوں کے سردار یڈھشٹر نے اندر پرستھ کے نام سے ایک شہر بسایا۔ یہ شہر آج کے دہلی کے چڑیا گھر سے متصل ہے اور اسی کے کھنڈرات پر بعد میں شیر شاہ سوری نے ایک قلعہ بنوایا تھا، جو پرانا قلعہ کے نام سے موسوم ہے۔ مگر اندر پرستھ، پانڈوئوں کو راس نہیں آیا اور انہوں نے اپنی تمام زمین و جائداد حتیٰ کہ اپنی مشترکہ بیوی دروپدی کو بھی جوئے میں گنوادیا۔ اسی طرح بارہویں صدی میں راجپوت مہاراجہ پرتھوی راج چوہان نے اجمیر سے دارلحکومت دہلی منتقل کی تھی، مگر جلد ہی اسکو محمد غوری نے شکست دیکر ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ فہرست خاصی لمبی ہے۔ فیروز شاہ تغلق، شیر شاہ سوری اور شاہ جہاں اور بعد میں انگریزوں نے دہلی کی از سر نو تعمیر کرائی ۔مگر ان سبھی کو ان کے اپنے بنائے گئے قلعوں و محلوں میں قیام کرنا نصیب نہیں ہوا ۔کیا تاریخ اب دوبارہ دہرا ئی جائیگی؟ کیا واقعی نریندر مودی کے آخری دن قریب آرہے ہیں ؟ کیا ان کو ان کے نئے تعمیر کردہ عالیشان وزیر اعظم ہاوٰ س میں رہنا نصیب ہوگا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔