تحریر : زبیر احمد
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا آخری بین الاقوامی سفر اس سال مارچ میں کیا تھا جب وہ بنگلہ دیش کے ایک مختصر سے دورے پر گئے تھے۔ چھ ماہ بعد اب وزیر اعظم مودی ایک بار پھر سفر پر نکلے ہیں لیکن اس بار ان کی منزل امریکہ ہے جہاں وہ 24 ستمبر کو امریکی صدر جو بائیڈن سے بھی ملاقات کریں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ سفر کافی مصروف رہے گا اور اس میں ان کی خاص توجہ تین چیزوں پر ہوگی۔ ان میں سے پہلی تو صدر جو بائیڈن سے ملاقات اور دو طرفہ اجلاس میں شرکت کرنا ہو گی۔ اس سفر کا دوسرا اہم جزو ہوگا کواڈ سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنا۔ امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مبنی اس اتحاد کا ورچوئل اجلاس ہو چکا ہے تاہم یہ پہلی بار ہوگا کہ تمام سربراہان ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر بات چیت کریں گے۔ اس سفر کی تیسری اہم چیز ہوگی وزیر اعظم مودی کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریر۔
انڈین کیمپ کو پی ایم مودی کی صدر بائیڈن سے ملاقات کا بے صبری سے انتظار ہے۔ جنوری میں بائیڈن کی جانب سے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھارت اور امریکہ کے درمیان یہ پہلی دو طرفہ سربراہی ملاقات ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مودی کے صدر براک اوباما اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ذاتی اور اچھے تعلقات تھے۔ لیکن صدر بائیڈن نے ابھی تک ان کی جانب زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی ہے۔ مودی امریکی نائب صدر کملا ہیرس سے بھی ایک علیحدہ ملاقات کر رہے ہیں۔ نائب صدر کی والدہ کا تعلق تمل ناڈو سے ہے اور یہ دونوں رہنماؤں کی پہلی باضابطہ ملاقات ہوگی۔
چند روز قبل شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم مودی نے کہا تھا ’افغانستان میں حالیہ واقعات کے ہمارے جیسے پڑوسی ملک پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کریں گے اور اس مسئلے پر علاقائی سطح پرتوجہ اور تعاون کی ضرورت ہے۔‘
چین اور پاکستان بھی ایس سی او کا حصہ ہیں۔ مودی نے طالبان کے تحت افغانستان کے ساتھ چار مسائل کی طرف اشارہ کیا ان میں سے ایک بنیاد پرستی اور عدم استحکام ہے جو بقول ان کے ‘دنیا بھر میں دہشت گرد اور انتہا پسندانہ نظریات کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر شدت پسند گروہوں کو بھی تشدد کا سہارا لے کر اقتدار میں آنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔
لیکن امریکہ گذشتہ ماہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے بعد سے افغانستان میں کم دلچسپی دکھا رہا ہے۔ ماہرین کے ساتھ بات چیت سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی عوام کو افغانستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی بائیڈن انتظامیہ پریشان ہے۔
اس کے برعکس امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھارت کو طالبان کی حکومت میں حقیقی سکیورٹی خدشات ہیں۔اس لیے افغانستان میں زیادہ دلچسپی رکھنے کی بھارت کی جائز وجوہات ہیں۔
کیلیفورنیا میں سان ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر احمد کورو اسلامی امور کے ماہر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ پر زور دے سکتے ہیں کہ وہ افغانستان پر توجہ مرکوز کرے تاکہ اسے بین الاقوامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا گڑھ بننے سے روکا جا سکے۔
لیکن ان کی رائے میں اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘امریکہ پہلے ہی افغانستان سے مکمل طور پر علیحدگی کا فیصلہ کر چکا ہے۔ امریکی رائے عامہ افغانستان کے ساتھ کسی بھی طرح کی دوبارہ شمولیت کی مخالفت کرتی ہے۔ امریکہ کو اب زیادہ سنجیدہ مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے چین اور سب صحارا افریقہ میں بڑھتی اسلامی شدت پسندی۔‘
شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر ٹام گنس برگ ایک سیاسی ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہبھارت جانتا تھا کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا یقینی ہے۔ ’میرے خیال میں ترجیحات میں کچھ اختلافات کے باوجود اس وقت انڈیا اور امریکہ ایک فطری اتحادی ہیں۔ بڑا مسئلہ چینی طاقت کا ہے جبکہ افغانستان سے انخلا ضروری تھا۔ اگرچہ انڈیا زیادہ کمزور محسوس کرتا ہے لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا کہ یہ انخلا انڈیا کے لیےغیر متوقع تھا۔‘
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ملک پر کڑی نظر رکھے گی اور افغانستان کو دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ نہیں بننے دے گی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چین بھارت کے لیے ایک بڑا سکیورٹی خطرہ ہے، خاص طور پر گزشتہ سال وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد چین کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا کا امریکہ کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
امریکہ چین سے نمٹنے کے لیے اپنے عالمی قائدانہ کردار کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صدر بائیڈن نے جنوری میں اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا کہ ’امریکہ واپس آگیا ہے۔‘ انھوں نے عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی ، ویکسین کی ترسیل اور چین کے مسئلے پر قیادت کرنے کے اپنے عہد کو بار بار دہرایا۔
اقوام متحدہ میں منگل کی تقریر میں بائیڈن نے چین کے خطروں کی جانب اشارہ کیا اور امریکی اتحادیوں کو یقین دلایا کہ وہ قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پچھلے ہفتے امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان تین طرفہ آبدوز کا معاہدہ جسے آؤکس (AUKUS) کہا جاتا ہے اس سمت میں ایک ٹھوس قدم ہے۔
اور اگر ایسا ہے تو یہ وزیر اعظم مودی کے حق میں بہترہو سکتا ہے۔ امریکہ کو چین کے مقابلے میں بھارت کی ضرورت پڑے گی۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ اکنامکس کے پروفیسر اور نامور تجزیہ کار اسٹیو ہینکے کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی سطح پر اپنی قیادت کو دوبارہ قائم کرنے کی اپنی کوشش میں بائیڈن نے چین کوچیلنج کرنےکے مقصد سے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ آؤکس کا معاہدہ یا اتحاد کیا۔ اب اس اتحاد کو مؤثرڈھنگ سے کام کرنے کے لیے بائیڈن کو بھارت کی ضرورت ہوگی۔‘
اگرچہ وزیر اعظم مودی اور صدر بائیڈن کے درمیان کوئی ذاتی کیمسٹری نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کے اسٹریٹجک مفادات جڑے ہوئے ہیں۔
پروفیسر لتا ورداراجن سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں بین الاقوامی سلامتی اور تنازعات کے حل کی سوسائٹی کی ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پی ایم مودی کو وائٹ ہاؤس میں سنا جائے گا۔
وہ کہتی ہیں ’بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے چین کو سب سے بڑا سیکورٹی خطرہ قرار دینا ایک ایسی بنیاد ہے جس کے ارد گرد مذاکرات کا ایک نیا مجموعہ آگے بڑھے گا۔ سکیورٹی کے اپنے معاہدے کو نافذ کرنے کا عہد آؤکس سے پہلے ہی واضح کر دیا گیا تھا اور اس لحاظ سے مودی کا وائٹ ہاؤس میں بہت اچھا استقبال کیا جائے گا۔‘
پروفیسر ہینکے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کے بعد صدر بائیڈن کو امریکہ کی عالمی قیادت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں انڈیا کے لیے ایک موقع ہے جیسا کہ پروفیسر ہینکے کی دلیل ہے۔
’یہ واضح ہے کہ عالمی اتحاد نئے سرے سے بنائے جا رہے ہیں۔ اگر انڈیا اپنے کارڈ اچھی طرح کھیلے گا تو یہ ایک بڑا کھلاڑی ہوگا۔‘
سوئٹزرلینڈ میں جنیوا انسٹی ٹیوٹ آف جیو پولیٹیکل اسٹڈیز کے اکیڈمک ڈائریکٹر پروفیسر الیگزینڈر لیمبرٹ کا بھی خیال ہے کہ انڈیا میں ایک مضبوط عالمی کھلاڑی بننے کی صلاحیت ہے۔لیکن انھیں نہیں لگتا کہ انڈیا خود کو امریکہ کے ساتھ جوڑ کر اپنی صلاحیت کا پورا استعمال کرسکتا ہے۔افغانستان میں انڈیا 20 سال تک امریکہ پر انحصار کرتا رہا۔ آخر میں اسے زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
پروفیسر الیگزینڈر لیمبرٹ کا کہنا ہے کہ بھارت کو دوسرے آپشنز تلاش کرنے چاہیے۔ وہ کہتے ہیں ‘بلاشبہ انڈیا کو افغانستان اور طالبان کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے کے لیے چین اور روس کی ضرورت ہو گی نہ کہ امریکہ کی۔ یقینی طور پر یورپ کی تو بالکل بھی نہیں۔ ہاں اسے پاکستان کی ضرورت ہوگی۔ چاہے وہ دہلی میں کتنا ہی عجیب کیوں نہ لگے۔ کوئی بھی اسٹریٹجک پراجیکٹ مثال کے طور پر قدرتی گیس پائپ لائن کے منصوبے کو لیں اگر انڈیا اور پاکستان بنیادی سفارتی معیارپر متفق نہیں ہوتے تو یہ منصوبے شاید ہی مکمل ہوں۔‘
ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن کے ساتھ مودی کی پہلی ذاتی دوطرفہ بات چیت کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار ایک چیز پر ہوگا ارو وہ ہے صدر بائیڈن کو افغانستان کے مسئلے سے جوڑے رکھنا جیسا کہ امریکی فوجوں کے انخلا سے پہلے تھا۔
مودی اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بائیڈن کو افغانستان کے مسائل پر قائم رہنے پر راضی کر سکتے ہیں اگر وہ صدر کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کرنے کے قابل ہو جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے صدر ٹرمپ اور صدر اوباما کے ساتھ انکے ذاتی تعلقات بن گئے تھے۔
پروفیسر لتا ورادراجن کا خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس میں پی ایم مودی کا پرتپاک استقبال کیا جائے گا۔
وہ کہتی ہیں ‘بائیڈن انتظامیہ کی مودی کے ساتھ وہی ذاتی قربت نہیں ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی مفادات انڈیا سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ اس خاص رشتے کو جاری رکھنے کے حق میں ہونگے اس لیے وہائٹ ہاؤس میں نریندر مودی کا پر تپاک استقبال ہوگا۔‘
سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی اقتصادی مشاورتی کونسل سے وابستہ رہنے والے پروفیسر سٹیو ہینکے نے دلیل دی کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اس لیے دونوں رہنماؤں کے درمیان اچھے تعلقات استوار ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘بائیڈن کی وزیراعظم مودی کی ہندو قوم پرستی کے لیے ناپسندیدگی کے باوجود بھارت ان کے لیے اہم ہے۔ جہاں تک مودی کا تعلق ہے انھیں بھی امریکہ کے تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ بھارت کے دیرینہ مسائل افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے بعد مزید بڑھ گئے ہیں۔‘
صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس دونوں گزشتہ سال صدارتی انتخابی مہم کے دوران مودی حکومت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کرتے رہے تھے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد دونوں نے مودی یا ان کی حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کیا ہے۔
درحقیقت جو بائیڈن ماضی میں اس وقت وزیراعظم مودی کی میزبانی کر چکے ہیں جب وہ امریکی نائب صدر تھے۔ دونوں رہنماؤں نے حالیہ مہینوں میں کئی بار ایک دوسرے سے فون پر بات کی ہے اور ورچوئل کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی ایک ایسے صدر سے ملاقات کر رہے ہیں جس کی پوری توجہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے پر ہے۔ لیکن جیسا کہ ایک سابق ہندوستانیسفارت کار کہنا ہے کہ امریکی صدر کا دل جیتنے کے لیے بھارتیہ وزیراعظم میں کافی ذاتی خوبیاں ہیں ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، بشکریہ: بی بی سی )