تحریر:محمد فیاض عالم قاسمی
تعددازدواج یعنی ایک سے زیادہ بیوی رکھنابھی ان مسائل میں سے ایک ہے جن کو ہمارامیڈیا،حکومت اوربرادران وطن مسلمانوں کی شبیہ کوبگاڑنے کے لئے پیش کرتے ہیں، اوریوں تاثردیاجاتاہے کہ ہرمسلمان چارچارشادیاں کرتاہےاورصبح اپنے بسترسے اٹھ کرپہلی فرصت میں اپنی کسی بیوی کوتین طلاق دے دیتاہے،اورشام میں حلالہ کرواکرپھراس سے شادی کرلیتاہے۔اس لیے پہلے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کوکورٹ کے ذریعہ حل کرانے کی کوشش کی گئی اوراب تعددازدواج اورحلالہ کے مسئلہ کو حل کرنے کےلئےکورٹ میں درخواست داخل گئی ہے۔تاکہ زرخریدمیڈیا،نام نہاد دانشوران قوم،اورحکومت کوایک عرصہ تک اس موضوع پربیان بازی ،الزام تراشی، ڈیبیٹ اورمگرمچھ کے آنسوبہانے کاموقعہ مل جائے۔اوراس دوران ملک کے حقیقی مسائل سے لوگوں کی توجہ دوسری غیرضروری چیزوں کی طرف مرکوزرہے۔اس لیے اس مسئلہ پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ تعددازدواج کی حیثیت مسلم معاشرہ میں کیاہے؟
تعددازدواج کی حیثیت مسلم معاشرہ میں ایک سخت ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں ہے، یعنی ایک مسلمان دوسری شادی اسی وقت کرتاہےجب پہلی بیوی سےاس کی صنفی ضرورت پوری نہ ہوپاتی ہو،کیوں کہ اس کی بیوی یاتوایسے مرض میں مبتلاہے جس کاعلاج ناممکن ہے،یاوہ اس عمرکوپارچکی ہے جس میں عورت اپنے شوہرکومکمل طورپر مطمئن نہیں کرپاتی ہے۔یاپھراس کی بیوی نافرمان بن کراپنے میکہ میں بیٹھ گئی ہو،یاکہیں بے وفائی کرکےبھاگ گئی ہویاپھر ہٹ دھرمی کرکےاپنے شوہرکی ضرورت پوری نہیں کرتی ہو۔اس کے علاوہ شاید وباید ہی کوئی مرد دوسری شادی کرنےکے لیےسوچتاہوگا۔مسلم معاشرہ میں ایسے مرد کاخاندان بھی اس کو اچھی نظرسے نہیں دیکھتاہے۔پہلی بیوی اوران کے گھروالوں کی طرف سے طعن وتشنیع، قدم قدم پربے جامطالبات،بے بنیادالزامات لگاکرکورٹ کچہری کے چکرلگوانے کی دھمکی وغیرہ نیز شریعت کی طرف سےبھی ایسے قیود اورشرائط متعین ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان ضرورت کے وقت بھی دوسری شادی کرنے کے لیے ایک بار نہیں ہزاربارسوچتاہے۔یہی وجہ سے کہ ہندوستان میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا تناسب سب سے کم مسلمانوں کے اندرہے۔چنانچہ اس سلسلے میں جوسروے منظرعام پرآئی ہےاس کویہاں درج کیاجاتاہے:
1951-1961ء کی سروے رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں31.4فیصد اورہندوؤں میں 60.5 فیصد، جب کہ قبائلیوں میں جن کاشمارایک طرح سے ہندوؤں میں ہوتاہے، تعددازدواج کی شرح98.17فیصد رہے۔ سمنتابنرجی کی1961ءکی سروے رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں تعددازدواج کی شرح31.4، ہندوؤں میں 5.15اورقبائلیوںمیں15.25فیصدہے۔(ہندوستانی معاشرہ میں تعددازدواج :228،ازڈاکٹرشائسہ پروین صاحبہ )
1969ء میںThe Indian Statistical Institute کے ایک محقق نےسروے کیااوررپورٹ دی جوہندوستان ٹائمس میں شائع ہوئی تھی،اس کااقتباس ملاحظہ ہو:
’’ایک غیرمسلم اسکالرکے ذریعہ کئے گئے سروے کے مطابق غیرمسلموں میں کثرت ازواج کی شرح٢.۷ فیصد ہے حالاں کہ غیرمسلموں میں قانونی اعتبارسے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے،مسلمانوں میں یہ شرح صرف دوفیصد ہے،جب کہ مسلمانوں کو قانونی اعتبارسے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے۔رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ عامۃ مسلمان دوسری شادی کے لیے عمردرازبیواؤں کاانتخاب کرتے ہیں ، جب کہ ہندواکثروبیشترجہیز کے حصول کے لیے نوجوان عورتوں سےدوسری شادی کرتے ہیں‘‘۔
1970میں ایک دوسرے مشہورومعروف روزنامہ The South نے یہ رپورٹ کی شائع کی تھی:
’’بلاشک وشبہ یہ امر حق ہے کہ کثرت ازواج کے واقعات ہندوستانی مسلمانوں میں دوسروں سے کم ہیں۔‘‘
پاک راسی کاخیال ہے کہ مسلمان دوسری شادی میں عام طورپرسن رسیدہ عورتوں کوترجیح دیتے ہیں،جب کہ ہندوزیادہ ترجوان عورتوں کو(ہندوستانی معاشرہ میں تعددازدواج :231،ازڈاکٹرشائسہ پروین صاحبہ )
یاد رہے کہ ہندوستان ہندومیرج ایکٹ1955ء کےمطابق شادی شدہ ہندومرد کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں۔یعنی اگر کوئی ہندودوسری شادی کرتاہے تو یہ غیرقانونی ہے،اس کے خلاف مقدمہ درج ہوسکتاہے، اورآئی، پی، سی،کی دفعہ 494اور495 کے تحت کارروائی ہوگی۔اورسات یادس سال تک کی سزا اورہوسکتی ہےاورجرمانہ بھی لگ سکتاہے۔اس کے باوجود ہندؤں میں دوسری یاتیسری شادی رواج بھی ہے اوراس کاتناسب بھی زیادہ ہے،جب کہ مسلمانوں کوقانونی اعتبارسے ایک سے زیادہ بیوی چارتک رکھنے کی اجازت ہے اس کے باجود مسلمانوں میں اس کاتناسب بہت کم ہے۔پھر بھی مسلمانوں کے ساتھ لعن طعن کرناان پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کرناکہاں تک رواہے؟اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ غیرمسلموں میں جوتعددازدواج کاغیرقانونی رواج ہے اس کو ختم کیاجائے،کیوں کہ یہ ان کے معاشرہ اورخود قانون کے خلاف ہے۔جہاں تک رہی بات مسلمانوں میں تعددازدواج کے ختم کرنے کی، تویہ مشکل ہی نہیں ،ناممکن ہے۔کیوں کہ اس کاتعلق سے فطرت انسان سے ہے۔انسان کی فطری خواہش کو روکنے کی کوشش کی گئی تو یقینی طورپرغیرفطری راہیں ہموارہوں گی،قانونی جواز کو بندکیاجائے تویقینی طورپرغیرقانونی راستے کھلیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کاتعلق ان کے مذہب سے جس قدرمضبوط ہے شایدہی دنیامیں کوئی ایسی قوم ہو،مسلمان اپنے جان مال کی بازی لگادے گا،مگرشریعت کے کسی حکم سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتاہے، اورنہ ہی اسے کوئی ہٹاسکتاہے۔تعددازدواج کی گنجائش خود قرآن کریم میں ہے۔(سورۃ نساء:3)پس جب قرآن کریم میں یہ مذکورہے اورقرآن کریم مسلمانوں کے لئے نہایت عظیم اورمقدس کتاب ہے، جو خالق کائنات کی طرف سے اتاری گئی ہے،جس کاہرحکم فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے۔اس لیے مسلمان اس معاملہ میں کسی بھی طرح کاسمجھوتہ نہیں کرسکتے ہیں، یعنی وہ دوسری یاتیسری شادی کرے یانہیں یہ الگ بات ہے، مگراس پر روک لگائی جائے، اس کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیاجاسکتاہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)