کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
بھارت آزاد ہوا تو بھارتیوں کو بھی آزادی کا دن دیکھنا نصیب ہوا ۔مگر یہ آزادی ہر بھارت واسی کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔مزدور،کسان ،غریب اور بد حال لوگوں کے حصے میں 15؍اگست کا دن صرف ایک قومی تیوہار بن کر رہ گیا ۔74سال گزرجانے کے بعد بھی بھارت واسیوں کو وہ آزادی نہیں ملی جس کے لیے انھوں نے قربانیاں دی تھیں۔ایسا محسوس ہوا کہ آزادی کے نام پر صرف اتنی تبدیلی آئی کہ گورے انگریزوں کی جگہ کالے انگریز حکمراں ہوگئے۔وہی جبرو استبداد جو برٹش راج میں تھا آج بھی ہے۔اس وقت انگریز حاکم کے خلاف کچھ لکھنا اور بولنا ناقابل معافی جرم تھا آج بھی حکومت پر تنقید کرنا ملک سے غداری ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ غلامی لباس بدل کر باقی رہی ۔خاص طور پر جس طبقے کو سب سے کم آزادی ملی وہ مسلمان ہیں۔وہ ملک میں ایسے رہ رہے ہیں جیسے کوئی کرائے دار مالک مکان کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔اس کے باوجود بعض دانشور کہتے ہیں کہ’’ مسلمان اس ملک میں نہ حاکم ہیں اورنہ محکوم بلکہ وہ اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘مگر ان کا یہ قول ’’دل کو خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے مصداق ہے ۔ اقتدارمیںبرابرکی شرکت کی بات تو چھوڑیے آپ اپنی آبادی کے تناسب میں بھی کہیںنہیں ہیں۔ دانشوران قوم جسے اقتدار میں حصے داری کانام دے رہے ہیں وہ ایک ’سراب‘ کے سوا کچھ نہیںہے۔
اقتدار کامطلب ہوتا ہے کہ صاحب اقتدار اپنے اختیارات کا استعمال آئین کی حدود میں اپنے من کی آزادی اور ضمیر کی آواز پر کرسکے۔جس ملک میں مسلمانوں کو دستر خوان پر مینو کے انتخاب کی بھی آزادی نہ ہو اسے آپ اقتدار میں برابر کی حصے داری کی بات کہہ کرمغالطے میںہیں؟ ،جہاں داڑھی اور ٹوپی دیکھ کر لنچنگ ہورہی ہو ،جہاں اذانوں کی صدائیں بار گوش ہورہی ہوں ،وہاں آزادی ہی خطرے میں ہے کجا کہ اقتدار میں حصے داری۔تعلیمی میدان میں آپ پر زعفرانی نصاب مسلط،بازار میں آپ کے ساتھ تعصب ،سرکاری نوکریوں میں مسلسل گرتی ہوئی شرح،پرموشن میں آپ کے ساتھ دھاندھلی،عبادت گاہیں غیر محفوظ،عزت و ناموس دائوں پر،سیاست میں پارٹی وہپ کی مجبوری ،اس کے باوجود بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ بھارت میں مسلمان غلام نہیں آزاد ہے بلکہ اقتدار میں برابر کا شریک ہے تو یہ سہانے خواب آپ کو مبارک ہوں۔جس قوم کی پانچ سو سالہ عبادت گاہ دن کے اجالے میں گرادی جائے اور پھر طویل عدالتی کارروائی کے بعد ’’بھویہ رام مندر‘‘بنادیا جائے۔جس کے پرسنل لا ء میں مداخلت کے دروازے کھول دیے جائیں ،جس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے۔اگر اس قوم کے دانشور خودکو آزاد سمجھتے ہیں اور اقتدار میں برابر کا شریک گردانتے ہیں تو اس قوم کو غلامی کی مزید دل دل میں جانے سے کون روک سکتا ہے۔؟
مجھے لگتا ہے کہ شاید الیکشن میں حصہ لینے کی آزادی کو ہم اقتدار میں شرکت سمجھ رہے ہیں ۔اس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جس پارٹی کے امیدوار ہوتے ہیں ہماری آزادی اس پارٹی کے پاس گروی رکھی ہوتی ہے۔گزشتہ ستر سالوں میں کتنے ہی مواقع ایسے آئے جب پارلیمنٹ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قانون سازی ہوئی مگر ہمارے مسلم ممبران پارلیمنٹ نے پارٹی وہپ کے پابند ر ہتے ہوئے یا تو اس بل کے حق میں ووٹ دیا ،یا زیادہ سے زیادہ غیر حاضر رہے یا بیمار ہوگئے ۔ طلاق ثلاثہ کی ووٹنگ کے دن ایک صاحب ریش ممبر پارلیمنٹ کاپیٹ خراب ہوگیا تھا۔کانگریس کے ایک ممبر پارلیمنٹ جو بغل میں جائے نماز رکھتے تھے ،بابری مسجد انہدام پر جب ان سے کہا گیا کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کو کم سے کم استعفیٰ دے دینا چاہیے تو ان کا جواب تھا کہ ہم مسلمانوں کے نمائندے نہیں بلکہ کانگریس کے نمائندے ہیں۔کیااسے ہم اقتدار میں برابر کی حصے داری کہہ رہے ہیں؟
تمام سیاسی جماعتوں کی تاریخ پڑھ لیجیے جن کی قیادت برادران وطن کررہے ہیں ۔ان کے دربار میں مسلم رہنمائوں کی وقعت صرف اتنی ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کے بیوپاری سمجھے جاتے ہیں۔سماج وادی پارٹی کئی بار اقتدار میں آئی لیکن مسلمانوںکو کیا ملا؟وہ اعظم خاں جس کے نام پر مسلم ووٹ حاصل کیے جاتے رہے آج جیل میں اپنے دن گن رہے ہیں اور پارٹی کے مکھیا باپ اور بیٹے یوگی جی کے ساتھ ناشتے اڑا رہے ہیں۔وہی ڈاکٹرشہاب الدین(اللہ غریق رحمت کرے) جن کے بل پر لالو یادو حکومت کے مزے لوٹتے رہے جب وقت آیا تو تسلی کے دو بول بھی نہ بول سکے۔کتنے ہی یعقوب قریشی،کوکب حمید،نسیم صدیقی،منقاد علی اپنی اپنی پارٹیوں میں منصب پر رہتے ہوئے بھی قوم کے لیے کچھ نہ کر سکے ۔آج بھی ایس ٹی حسن،کنور دانش علی،شفیق الرحمان برق جیسے ذی شعور لوگ موجود ہیں مگر اپنی اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کے پابندہیں ۔ کنور دانش علی نے طلاق ثلاثہ اور کشمیر پر ضمیر کی آواز پردو لفظ بول دیے تو بہن جی نے ان کوپارلیمنٹ میں پارٹی لیڈر کے عہدے سے برطرف کردیا ۔یوپی میں مختار انصاری کی اوردہلی میں طاہر حسین کی خبر لینے والا کوئی نہیں، ایسا نہیں ہے کہ مسلم سیاسی لیڈران اپنی اوقات نہ سمجھتے ہوں ۔وہ سب جانتے ہیں ،ان میں سے ہر ایک کو معلوم ہے کہ پارٹی کے فیصلوں میںان کا کتنا رول ہے۔وہ اپنے محلہ میں ایک اسکول نہیں بنواسکتے ،ایک اسپتال نہیں کھلوا سکتے۔اس دردکا تنہائی میں وہ اظہاربھی کرتے ہیں۔مگر پارٹی میں رہ کر اپنی بات منوانے کا ان میں دم خم نہیں اور نہ کسی مسلم قیادت کو تسلیم کرنے کی ہمت ہے۔غیروں کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کرنے والے اپنوں کو سلام کرنے سے ہچکچاتے ہیں،اپنوں کی حمایت سے انھیں جمہوریت خطرے میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ملک میں مسلمانوں کی بدترین صورت حال کے لیے یہی مسلم قیادت ذمہ دار ہے جس نے اپنے ووٹوں کا سودا کیااوراپنی قوم کو بیچ ڈالا۔پوری پارلیمنٹ میں کون ہے جو مسلم اور مظلوم اقوام کے مسائل پر کھل کر بات کرتا ہے۔جو دن کو دن اور رات کو رات کہتا ہے ؟ پہلے وہ اکیلا تھا،حسن اتفاق کہ اب وہ ایک سے بڑھ کر دو ہوگئے ہیں ۔ جو اپنے ضمیر کی آواز پر اس لیے بول جاتے ہیں کہ وہ پارٹی وہپ سے زیادہ آئین کے وفادار ہیں۔
میرے عزیزو :تم نے ستر سال تک کانگریس کو خون دے کر سینچا ،تم نے اپنے ووٹوں اور نوٹوں سے لالو،ملائم،نتیش،کیجریوال،ممتا،اور مایا کو مالا مال کیا اور مضبوط کیا جس کے بل پر انھوں نے اپنی برادریوں کو طاقت وربنا دیا اور تمہیں سیاسی دیوالیہ کردیا ۔صرف ایک بار کسی اپنے کو بھی مضبوط کرکے دیکھ لو آ خر وہ بھی تمہارا بھائی ہے ۔مثل مشہور ہے کہ’’ غیر مارے دھوپ میں ڈالے اور اپنا مارے چھائوں میںڈالے‘‘۔اس بات پر یقین رکھو کہ تمہاری اپنی قیادت کبھی ظلم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکتی ،کبھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں جاسکتی ۔ہماری سیاسی غلامی اسی طرح ختم ہوسکتی ہے ۔اپنی سیاسی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کایہ بہت اچھا وقت ہے کیوں کہ ہم نے سب کو آزما کر دیکھ لیا ہے ۔ہم پر کسی کا ووٹ ادھار نہیں ہے۔کوئی ہم سے شکوہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور کوئی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ ہمیں ووٹ دو ورنہ بی جے پی آجائے گی ۔کیوں کہ ان کو ووٹ دینے کے بعد بھی بی جے پی آچکی ہے ۔