تحریر : مسعودجاوید
بلڈوزر’انصاف‘ ہندو مسلم کرنے کے لئے چینل کو 24×7 موضوع مل گیا ہے۔ ڈیبیٹ میں مسلم اور غیر مسلم پینلسٹ معقول اور غیر معقول باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے یا کسی مسلمان کو تکلیف نہیں ہو رہی ہے کیونکہ سیاسی موضوعات پر ان کی بحث اور شکست و فتح سے ہماری صحت پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، اسی لئے ہم لوگ کسی بھی پینلسٹ کو ایسے ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ لینے سے نہیں روکنا چاہتے ہیں۔
لیکن دین اسلام ، اسلام کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، شریعت ، دین اسلام کے شعائر اور رسومات پر ڈیبیٹ میں مولاناؤں ، مسلم دھرم گروؤں ، اسلامی اسکالروں کی شرکت سے ہمیں اس لئے تکلیف ہوتی ہے کہ ایسے ڈیبیٹ میں اسلام کے نمائندوں کی ذلت اور تضحیک ہم سے دیکھی نہیں جاتی اس لئے کہ بالآخر ان اسلام دشمن مشارکین کا حملہ آپ کی ذات سے گزر کر اسلام ، اسلامی عقائد اور مسلمانوں پر ہوتا ہے۔
آپ لوگ چند ہزار کے عوض یا ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے کی ہوس کی تسکین کے لئے جانبدار اینکر اور غیر مسلموں کی مختلف فرقہ پرست تنظیموں کے نمائندوں کی باتیں برداشت کرتے ہیں لیکن آپ کے مقابلے میں وہ اتنے منہ زور ہوتے ہیں اور تیاری کے ساتھ آتے ہیں کہ آپ پر ذاتی حملے کے ضمن میں اور اینکر کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے وہ اسلام اور اسلامی عقائد کی اہانت کرتے ہیں ۔
جب وہ کہتی ہے کہ او جالی دار ٹوپی والے ملا اڑتے گھوڑے پر سوار ہوکر یہاں سے بھاگ جا…… تو یہ آپ کی ذات پر نہیں ، مسلمانوں کے شعائر ، عقائد ،علامتوں اور مظاہر پر حملہ ہوتا ہے۔ صاف صاف لفظوں میں اس سے ٹوپی اور معراج کا مذاق اڑایا گیا ہے جس سے مسلمانوں کے دینی جذبات کا مجروح ہونا فطری ہے تو پھر آپ کیسے مسلمان ہیں جو یہ سب برداشت کرتے ہیں اور اینکر و پینلسٹ کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں احتجاجاً واک آؤٹ تک نہیں کرتے !
اگر آپ وہاں نہیں ہوتے تو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں اس طرح گستاخی نہیں کی جاتی ۔وہ کہہ رہی کہ ملاؤں نے ہمارے شیو لنگ کا بار بار اپمان کیا تو میں جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی اور وہ سب بول گئی ۔
حالانکہ حقیقت سے اس کی یہ باتیں میل نہیں کھاتیں اس لئے کہ ایک فریق کا کہنا ہے کہ شیو لنگ ہے دوسرے فریق جس میں بعض غیر مسلم بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ فوارہ ہے ۔ اتنا کہنے سے شیو لنگ کا اپمان کس طرح ہوا! دوسری بات یہ ہے جب قضیہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو عدالت سے باہر کسی فریق کو رائے زنی ہی نہیں دعویٰ کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟
لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر میرا ماننا ہے کہ ایسے مذہبی موضوعات پر ڈیبیٹ میں مسلمانوں کی شرکت کی وجہ سے ہی غیر مسلموں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چیخنے چلانے اور توہین کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اسلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم، شریعت محمدی ، اسلامی شعائر، طور طریقے اور رسومات کے خلاف دنیا میں بے شمار کتابیں مختلف زبانوں میں صدیوں سے لکھی جاتی رہی ہیں ان کے اعتراضات کا مدلل مسکت جواب مہذب انداز میں دیئے گئے ہیں اور یہ کام جاری ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔
’اسلام اور کفر و شرک‘اور ’حق و باطل‘ کا تصادم ہوتا رہے گا۔ لیکن ایک متعدد مذاہب ، عقائد ، ثقافت ، رسوم و رواج اور عبادت کے مختلف طرق والے ملک میں یا کہیں اور بھی احقاق حق کے دنیا بھرمیں معترف و مسلم طریقے کو اختیار کر کے ہی پرامن بقائے باہم کے اصول پر زندگی گزار سکتے ہیں اور اس پرامن بقائے باہم کا پہلا اصول ہے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا ۔
ہمیں عام غیر مسلموں کو یہ بتانا چاہیے کہ ہمارے اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے معبودوں دیوی دیوتاؤں کے خلاف توہین آمیز کلمات نہ کہیں ان کا اپمان نہ کریں۔ اسلام نے ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو نجس نہ کریں ان کو نقصان نہ پہنچائیں۔
ٹی وی ڈیبیٹ میں جانے والوں کی مجبوری یا کم علمی کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ بھی سن کر خاموش رہتے ہیں کہ : ’’اسلام کے سنستھاپک محمد صاحب‘‘! ۔۔۔۔
انہیں غیر مسلموں کو بتانا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کے بانی نہیں ہیں ۔ دین تو ایک ہی ہے جسے اللہ نے قرآن مجید میں اسلام کہا ہے ’أن الدين عند الله الاسلام ‘ دین تو ایک ہے جسے اللہ نے آدم علیہ السلام کے ساتھ بھیجا اور اسی دین اسلام میں جب جب تحریفات کی گئی لوگ اس کے منکر ہونے لگے یا ملاوٹ کر کے دین اسلام کی اصل شکل و صورت بدل دیا اور شرک کرنے لگے تب تب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دین اسلام کو اصل شکل و صورت میں واپس لانے کے لئے خطہ ارضی کے مختلف علاقوں اور قوموں میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجا۔ ان کو ان کے ملک ، قوم اور ان زمانوں کے تقاضوں کے مطابق شریعت دی گئی۔ بالفاظ دیگر مختلف انبیاء کرام کی شریعت الگ الگ تھی لیکن دین سب کا اسلام تھا۔
جن کو ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ لے کر اور ذلیل ہو کر مشہور ہونے یا پیسہ کمانے کا شوق ہے وہ اس سے بہتر طریقہ اپنائیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت یو ٹیوب کے توسط سے کریں۔ دین اسلام کے سماجی پہلوؤں پر معتبر کتابوں اور حوالوں سے روشنی ڈالیں۔ دوسرے ادیان میں کمیوں کے ذکر سے احتراز کرتے ہوئے اپنے دین کی خوبیوں اور مثبت باتوں سے لوگوں کو واقف کرائیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)