22 ستمبر کو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2013 سے وقف بورڈ میں خواتین کو تحفظات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پسماندہ مسلمانوں پر وقف بورڈ کا ممبر بننے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
اویسی نے خاص طور پر بہار ہندو مذہبی ٹرسٹ ایکٹ 1950 میں خواتین اور پسماندہ طبقات کی عدم نمائندگی کو اجاگر کیا۔انہوں نے بی جے پی سے پوچھا "کیا وہ خواتین اور پسماندہ طبقات کو شامل کرنے کے لیے اس ایکٹ میں ترمیم کرے گی؟” ۔انہوں نے پسماندہ مسلمانوں کے مسئلہ پر بھی بات کرتے ہوئے کہا، ”اگر بی جے پی کو پسماندہ مسلمانوں کا اتنا ہی خیال ہے تو انہیں درج فہرست ذات کے زمرے میں کیوں شامل نہیں کیا جاتا؟ مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو پسماندہ ذات کی فہرست سے نکالنے کی کوششیں کیوں کی جارہی ہیں؟
اویسی کا یہ ردعمل مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے جواب میں آیا ہے، جنہوں نے وقف بورڈ میں غریب مسلم خواتین اور پسماندہ مسلمانوں کو شامل کرنے کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا، جبکہ وقف بورڈ پر زمینوں پر قبضے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ سنگھ نے ریمارک کیا تھا، ”کانگریس نے وقف بورڈ کو بہت زیادہ اختیارات دیئے۔ ’’نہ کھاتا، نہ بہی، جو وقف بورڈ کہے وہ صحیح ‘‘