تحریر : مسعود جاوید
سیاسی پارٹیاں بی جے پی کی حریف ہیں دشمن نہیں ۔ حریف rival party فریق مخالف کا مقابلہ کرتا ہے۔ اسٹیج پر تقریروں سے ، ٹی وی چینلز پر ڈیبیٹ میں حصہ لے کر ، اخبارات کو انٹرویو دے کر اور پریس ریلیز شائع کرا کر اپنے نظریات ، موقف اور پالیسیوں کو مخالف پارٹی سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
لیکن عوامی منظر سے ہٹتے ہی مقتدر اور اپوزیشن کے لیڈران شیر شکر ہو جاتے ہیں۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود سماجی رشتوں میں دراڑ نہیں آنے دیتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے اور تقریبات میں شریک ہوتے ہیں ۔
لیکن مسلمانوں کا حال’ بیگانی کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ جیسا ہے۔ وہ پارٹیوں کی سیاسی جنگ کو ذاتی دوست اور دشمن کی نظر سے دیکھتے ہوئے بی جے پی کو ازلی دشمن مانتے ہیں۔اگر بی جے پی کی بعض پالیسیاں آپ کی نظر میں اقلیت مخالف بلکہ صاف طور پر کہا جائے کہ مسلم مخالف ہیں تو کیا نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو اپنا حقیقی دوست تسلیم کرنے کے لئے یہ کافی ہے۔
ظاہر ہے نہیں، اس لئے کہ جب تک یہ نام نہاد پارٹیاں بی جے پی کی پالیسی کے خلاف اپنا واضح موقف جلسے جلوسوں میں ، پریس کانفرنسوں میں، اخباری بیانات میں اور نجی محفلوں میں برسر عام اعلان نہ کریں ہم ان کو دوست اور بی جے پی کو دشمن نہیں سمجھ سکتے۔کانگریس ہو یا سماجوادی، راشٹریہ جنتا دل ہو یا جنتا دل یونائٹڈ یا اس قبیل کی دوسری پارٹیاں، اقلیتوں بالخصوص مسلم مسائل پر علی الاعلان اپنا موقف ظاہر کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔
مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ریاستی صدر کمل ناتھ ’ سافٹ ہندوتوا‘ کے حق میں ہے تو کانگریس سینیئر لیڈر دگ وجے سنگھ اس کے خلاف۔ اس چپقلش کے مدنظر جاگرن اخبار کے مطابق دونوں کو کو سونیا گاندھی کے دربار میں طلب کیا گیا تھا اور دک وجے سنگھ کو نصیحت کی گئی سے کہ وہ ’ ایسا کوئی بیان نہ دیں جس سے اکثریتی طبقہ ناراض ہو کر کانگریس سے دوری بنائے‘ !
یہی وہ’نصیحت‘ ہے جو پچھلے کئی سالوں سے ہر نام نہاد سیکولر پارٹی نے، بزبان قال یا بزبان حال اپنے لیڈر اور ذمے دار کارکنوں کے لئے لازمی روش یا ’اصولی‘ موقف بنا رکھا ہے۔ چنانچہ جب بھی مسلمانوں کے حقیقی مسائل، دستور و قانون کی نظر میں جائز مطالبات یا ظلم و زیادتی اور امتیازی سلوک بھید بھاؤ پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع ہوتا ہے وہ اپنے لبوں کو سی لیتے ہیں ۔
پچھلے کئی سالوں کے دوران ایسے متعدد مواقع پر ان سیکولر پارٹیوں کا ’اصولی موقف ‘ ، ’نصیحت پر عملدرآمد‘ اور ننگی آنکھوں سے نظر آنے والی ’راہ فرار‘ اتنا نمایاں رہا ہے کہ جمع تفریق اور ضرب تقسیم کے بغیر بھی عام آدمی محسوس کر رہا ہے دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے۔ ….. تو پھر اے مسلمانو! آپ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کیوں بنے پھرتے ہو ! کہیں ایسا تو نہیں کہ جذباتی طور پر ان سیاسی پارٹیوں نے آپ کو یرغمال بنا لیا ہے اور ایسی ذہن سازی کی ہے کہ آپ بی جے پی کو دشمن سمجھیں۔ یہ اور بات ہے آپ کے آقا کے لئے بی جے پی دشمن نہیں فقط ایک حریف مدمقابل سیاسی پارٹی ہے۔
ابھی تازہ تازہ معاملہ اترپردیش اسمبلی انتخابات کا ہے آپ نے یادوؤں سے زیادہ اکھلیش یادو کے لئے اپنی ساری قوت جھونک دی یہ اور بات ہے کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوا اور حکومت ایک بار پھر بی جے پی کی بنی لیکن اے مسلمانو کیا آپ کے 96 فیصد ووٹ کی اتنی بھی قیمت نہیں کہ اکھلیش یادو مختلف ریاستوں میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرے، مسلم پرست بن کر نہیں قانون کی بالادستی میں یقین رکھنے والا اور نگہبان کی حیثیت جائز بات بولے متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرے!
بات صرف سماجوادی کی نہیں ہر نام نہاد سیکولر پارٹی کی ہے وہ مسلم مسائل پر بولنے سے اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے سے بچتے ہیں اس لئے کہ ان کو اس "نصیحت”: (ایسا کوئی بیان نہ دیں جس سے اکثریتی فرقہ ناراض ہو کر دوری بنائے) پر عمل کرنا ہے۔ اور جب ایسا ہے تو اے مسلمانو آپ نے خواہ مخواہ بی جے پی کو دشمن کیوں قرار دے رکھا ہے ! کسی پارٹی کہ آلہ کار بننے کی بجائے خاموش تماشائی بنے رہنا زیادہ مفید ہوگا۔ یہ پارٹیاں آپ کی اشتعال انگیزی کو سیاسی ایندھن بناتی ہیں اور ہم جانے انجانے میں ان کے کام آتے ہیں! صد حیف۔۔
اترپردیش میں انتخابات سے قبل بیگم ، ابا جان ، قبیل کے تمام علامتی جملوں کا استعمال کیا گیا لیکن انتخابات میں فتحیاب ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ صاحب نے اذان اور مذہبی جلوس وغیرہ سے متعلق جن مثبت اقدامات کا اعلان کیا ہے اسے خوش آمدید کہیں اور عملدرآمد میں اپنا تعاون پیش کریں۔
سرکاری اراضی پر عبادت گاہوں کے ضمن میں تجاوزات بہر حال غلط ہیں اگر انہیں منہدم کرنے کی کارروائی شروع ہوتی ہے تو جذباتی بیان بازی اور ہسٹریائی رد عمل کا مظاہرہ کر کے آپ اپوزیشن پارٹیوں کے ‘بغیر اجرت کے نوکری کا کام نہ کریں۔
سیکولر پارٹیوں کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی بجائے اپنے مفادات کا خیال کریں۔ اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ غصب کی ہوئی زمین پر عبادت قبول نہیں ہوتی ہے اس لئے غیر مسلموں کی عبادت گاہیں منہدم کی جائیں یا نہیں مساجد و مکاتب خانقاہ اور درگاہ کی اراضی میں اگر سرکاری یا کسی اور کی زمین غلط طریقے سے شامل کی گئی ہے تو اس encroachment کو خود خالی کر دیں ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)