محمد برہان الدین قاسمی
سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی باتوں اور تحریروں سے لگتا ہے کہ وہ اس زمین کے بجائے کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔ ملک بھر میں ایمریجنسی جیسا پنڈامک ایکٹ نافذ ہے جس سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں یہاں تک کہ کارپوریشنز کو الگ اور بہت سے ایسے اختیارات حاصل ہیں جو عام دنوں میں نہیں ہوتے۔ اس صورت حال میں عوام کے پاس حکومتوں اور صحت سے متعلق شعبوں کی ہدایات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ حکومت کے فیصلے معقول، مناسب اور فائدہ مند ہیں یا نہیں، یہ الگ بحث ہے۔ حکومت کےلوگ خود کیا کیا اور کیسے کیسے قانون بنارہے ہیں اور پھر خود کے بنائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں یہ بھی ظاہر اور سب دیکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے حکومتیں ان حالات سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہورہی ہوں یا ان حالات سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہوں۔ ایک عام انسان صرف بات کر سکتا ہے لیکن عملی طور پر کسی بھی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ہے۔ یہی حقیقت ہے اور ڈیموکریٹک سسٹم ایسا ہی ہوتا ہے۔ عام آدمی کو پانچ سال میں ایک بار موقع ملتا ہے کہ وہ حکومت بدل دے اور بس۔
دوبارہ لاک ڈاؤن لگانا معقول نہیں لگ رہا ہے اور اس سے ملک اور عوام کا نقصان ہی ہوگا۔ خاص کر رمضان المبارک کے مہینہ میں پھر سے تمام اجتماعی اعمال اور مساجد سے دور رہنا یقیناً ہر دین دار مسلمان کے لئے تکلیف دہ ہے؛ لیکن مسلمانوں کا مذہبی بنیادوں پر اس لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنا اور اس کے لئے احتجاج وغیرہ ایک اور بڑی غلطی ہوگی اور صاف صاف بیوقوفی ہوگی۔ تبلیغی جماعت کے معاملہ کو کس طرح سے اچھالا گیا تھا ہمیں اس سے سبق لینا چاہئیے۔ حقیقت کیا تھی اور کیا ہے یہ سب کو معلوم ہے لیکن پھر بھی پوری مسلم امت کو بہت ہی منفی طور پر پیش کیا گیا۔ ہندوستان بدل چکا ہے اور مسلمانوں کو اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے اپنا لائحۂ عمل تیار کرنا پڑے گا۔
عقل مندی اسی میں ہے کہ آپ مزید موقع نہ دیں اور صبر سے کام لیں۔ پھر ایک بار حالات مزید خراب ہوں گے اور کرونا کے متعلق ساری ناکامیوں کا بوجھ خدا نخواستہ مسلمانوں پر ڈالدیا جائے گا۔ مزید یہ کہ ہماری مخالفت سے کچھ ہونا نہیں ہے سوائے ٹکراؤ کے اور یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس سے ہم تنہا حکومتوں سے ٹکراؤ پیدا کریں اور اس سے جانبر ہوجائیں۔ اپنی چہارداریوں میں محفوظ بیٹھے کچھ لوگوں کا یہ جوش نامعقول ہے اور آگے شرمندگی کا سبب ہو سکتا ہے۔ WHO(عالمی ادارہ صحت) اور حکومت کی ہدایات ماننی پڑیں گی چاہے یہ آپ کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ان حالات میں حکومت کے صحت عامہ کے متعلق فیصلہ اور احکامات کے خلاف ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رجوع کرنا بھی وقت، پیسے کے بربادی کے ساتھ ساتھ شرمندگی کا باعث ہوگا۔ کورٹ کبھی بھی ان حالات میں حکومت کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کرے گا۔ ہاں کچھ لوگوں کا اردو اخبارات میں نام اور فوٹو آ جائے گا اور دوسرے کچھ لوگ گودی میڈیا میں بحث کے لیے بلالیے جائیں گے۔ جن کو ایسا شوق ہے، ان کو ان کا شوق مبارک ہو!