کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
کسی بھی ملک کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اورہمارا ملک تو کئی سو سال میں کئی رنگ دیکھ چکا ہے ۔مغل سلطنت کے زوال کے بعد برٹش راج اور اس کے بعد تحریک آزادی اور پھر جشن آزادی،آزاد بھارت میں ہر دس سال بعد ملک کے حالات بدلتے رہے اور اب تو ہر دن بدل رہے ہیں۔یہی ملک ہے جہاں ہر شخص کو ہر طرح کی آزادی تھی،اپنی مرضی کا کھانا کھاتا،اپنی پسند کے خدا کی عبادت کرتا تھا،یہی ملک ہے جہاں اب فسطائیت نے کچھ طبقات کی آزادی پر قدغن لگادئے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہنس بھی نہیں سکتے۔بدلتے ہوئے حالات میں جو قومیں اپنی حکمت عملی بھی بدل لیتی ہیں وہ حالات کا بہتر طور پر سامنا کرتی ہیں اورجو قومیں جوش و جذبات میں آکر بے حکمتی کا راستا اپنا تی ہیں وہ زوال کا شکار ہوتی ہیں ۔بد قسمتی سے بھارتی مسلمانوں کا شمار دوسرے زمرے میں ہوتا ہے۔
افغانستان کی صورت حال پر جس عجلت کے ساتھ ہمارے مبصرین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے میرا خیال یہ ہے کہ وہ حکمت کے پہلو سے مناسب نہیں ہے ۔ساری دنیا کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ان کا یہ رشتہ ا یمان کی بنیاد پر قائم ہے۔اسی رشتے کی بنیاد پر ساری دنیا کے مسلمان اپنے ایمانی بھائیوں کی خوشی اور غم کو محسوس کرتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے ہیں۔یہی کچھ صورت حال افغانستان کی بھی ہے۔طالبان کی وطن واپسی اور اپنے ملک کی حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو بھی فرحت کا احساس ہوا ۔حالانکہ یہ خوشی طالبان کی واپسی پر کم امریکہ کی شکست پر زیادہ تھی۔لیکن بھارتی میڈیا کو چند مسلمانوں کا اظہار مسرت بھی راس نہ آیااور اس نے سارے مسلمانوں کو ہی طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔حالانکہ بھارتی میڈیا اور فرقہ پرست سیاست دانوں کا یہ رویہ آئین اور اخلاق کے مطابق نہیں ہے۔جس ملک کے لوگ کسی بھارتی نژاد شخص کے کسی دوسرے ملک میں میئر اور گورنر بننے پر خوشی کا حق رکھتے ہوں ،انھیں دوسروں کو بھی یہ حق دینا چاہئے کہ وہ اپنے ایمانی بھائیوں کی خوشی اور غم میںاپنے جذبات شامل کرسکیں۔مگر جب ملک کے حالات اس قدر خراب ہوں کہ ہماری آہ بھی رسوائی کا سبب بن جائے تو حکمت کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے گریز کریں۔کم سے کم اظہار بیان میں عجلت کے بجائے صبر سے کام لیں۔مجھے یقین ہے کہ یہی بھارتی میڈیا ایک دن ملک میں طالبان حکومت کے ذمہ داروں کا استقبال کرے گا۔اسی ملک میں ابھی دس سال پہلے صدام حسین کے حق میں ہم نے ریلیاں اور جلوس نکالے اور ان کے لیے دعائیہ اجتماعات منعقد کیے اور ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی ۔اس لیے کہ اس وقت ملک میں فرقہ فرپرست حکومت میں نہیں تھے ،صحافت پرگودی میڈیا کی گرفت نہیں تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں ہمیں اپنے ملکی ایشوز پر تو ضرور آئین کے مطابق رد عمل کا اظہار کرنا چاہئے لیکن کسی دوسرے ملک کے حالات پر تبصروں سے گریز کرنا چاہئے ،خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹوں سے بچنا چاہئے جس سے شر پیدا کرنے والوں کو موقع ہاتھ آئے۔یہ ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہم ہر واقعہ پر ضرور تبصرہ کریں یا اپنا موقف واضح ہی کریں۔
بین الاقوامی ایشوز کے بجائے ملک میں ہر روز اتنے واقعات ہوتے ہیں جن پر ہم اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔یا ان پر ہمیں کرنا چاہیے۔مسلمانوں کے تعلق سے عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھیں بس اپنے مسائل سے دل چسپی ہے اور وہ بھی جذباتی مسائل سے انھیں عام انسانی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے ۔ہماری یہ تصویر اسی لیے بنی ہے کہ ہم صرف اپنے مسائل ہی اٹھاتے ہیں۔یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ ہر قوم اپنے مسائل اٹھاتی ہے اگرمسلمان اپنے مسائل اٹھاتے ہیں تو کوئی برا کام نہیںکرتے ۔لیکن خیر امت ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ دوسروں کے مسائل یا عام انسانی مسائل پر بھی بات کی جائے۔خاص طور پر سوشل میڈیا پر ہمارے نوجوانوں کو عام انسانی مسائل پر بات کرنا چاہئے۔مثال کے طور پر ملک میں مہنگائی ،بے روزگاری اور بدعنوانی ہر دن نیا ریکارڈ بنا رہی ہے۔لیکن ہماری طرف سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی،ہمارے وہی کرم فرما جو طالبان کی کامیابی پر بیان دے رہے ہیں ان ایشوز پر کوئی بیان نہیں دیتے۔ہر ہفتے کسی نہ کسی لڑکی کازنا بالجبر کے بعد قتل ہورہا ہے،مگر ہماری آواز جس شدت کے ساتھ سنائی دینا چاہئے تھی نہیں دے رہی ہے۔خاص طور پر ہمارا دینی حلقہ خاموش رہتا ہے۔جب کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کے خلاف قلم بھی اٹھائیں ،مظاہرے بھی کریں ،سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہوں۔یہ مت سوچیے کہ آپ کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوگی۔آپ نے جامعہ ملیہ الامیہ دہلی کے مظاہرین پر گولی چلانے والے رام بھکت گوپال جس نے بعد میں ہریانہ میں بھی بدزبانی کی اس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی وہ گرفتار ہوا ،بھلے ہی اس کو ضمانت مل گئی۔ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ،گڑیا بالمیکی کے عصمت دری کے بعد قتل پر مسلم جماعتیں کچھ سرگرم دکھائی دیں تو متاثرین کے طبقے نے خیر مقدم کیا۔ان کے دل میں نرمی پیدا ہوئی۔
ہماری حیثیت مسلمان کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہری کی بھی ہے ۔ہندوستانی شہری ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم ہندوستانی عوام کو درپیش مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں اور بات کریں۔بین الاقوامی مسلم مسائل پر ہماری وہی تنظیمیں اپنا بیان دیں جن کے دائرے میں وہ مسائل آتے ہیں۔آخری بات یہ ہے کہ عام انسانی مسائل پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات بھی کریں۔موجودہ حالات میں ملک میں صرف مسلمان ہی مظلوم نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم سماج کے کئی طبقات بھی اس میں شامل ہیں ۔ان طبقات کو ظلم سے نجات دلانا بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے۔یہ مظلوم طبقات ہر ریاست میں ہیں ۔بلکہ موجودہ نظام حکومت میں مظلوم کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ ہر گلی کوچے میں آپ کو نظر آجائے گا بس آپ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ ہمارے دانشور،قلم کار،سیاسی و سماجی کارکنان اور خاص طور ہمارے رہنما اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ ملک اور تمام اہل ملک کو درپیش مسائل پر بھی اپنے موقف کی وضاحت کریں،بھارتی آئین کے مطابق ان کو حل کرنے کے اقدمات کریں۔ جذبات کا اظہار بھی حکمت و مصلحت کے تقاضوں کے پیش نظر کیا جائے،تاکہ خیر امت ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت بھی دیا جا سکے ۔