دہرا دون :(ایجنسی)
’ہری دوار مبینہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی کال‘ دینے والا نرسگھانند اس وقت آپے سے باہر ہوگیا جب بی بی سی نے اس سے اس معاملہ پر گفتگو کی۔اس نے مائیک نکلا کر پھینک دیا ۔یہی نہیں اس کے بھکتوں نے گالی گلوج ،دھکا مکی کی،ٹیم کو روک لیا بڑی مشکل سے نجات ملی ۔یہ معاملہ نرسنگھا نند کی گرفتاری سے پہلے کا ہے۔
کچھ ہی دن پہلے سپریم کورٹ نے ہری دوار دھرم سنسد میں ہیٹ اسپیچ واقعہ کی آزادانہ جانچ کی مانگ کو لے کر پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش اور سینئر صحافی قُربان علی کی پی آئی ایل پر اتراکھنڈ سرکار اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیااین وی رمن، جسٹس سورج کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ کے سامنے 22 جنوری کو پھر سے سماعت ہونی ہے۔بی بی سی کی ٹیم یتی نرسنگھانند کی رضامندی سے وقت طے کرنے کے بعد ان کا انٹرویو لینے ہری دوار کے سروانند گھاٹ پہنچی تھی۔
جب ان سے ہری دوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر سے متعلق کیس کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہوگیا ۔ بی بی سی کے نامہ نگار نے تسلی دینے کی کوشش کی لیکن اس نے اپنے کوٹ میں رکھا مائیک اتار کر پھینک دیا اور بولنا شروع کر دیا۔
جیسے ہی یتی نرسنگھانند نے مائیک ہٹایا، وہاں موجود کارکنوں نے بی بی سی کی ٹیم کو گالی گلوچ اور دھکا دینا شروع کر دیا، انہوں نے دھمکیاں دیں اور زبردستی ٹیم کو کافی دیر تک روکے رکھا۔ بی بی سی کے نامہ نگاروں کی تلاشی لی گئی اور دھمکی دی گئی کہ اس ویڈیو کو نشر نہ کیا جائے۔
اس کے بعد پولیس آئی اور بی بی سی کی تحریری شکایت پر نرسنگھانند اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ یہ ایف آئی آر تعزیرات ہند کی چار دفعات-341 (غیر قانونی جبر)، 352 (بغیر اشتعال انگیزی کے حملہ)، 504 (توہین، گالی گلوچ، امن کی خلاف ورزی) اور 506 (دھمکی) کے تحت درج کی گئی ہے۔
مہنت یتی نرسنگھانند غازی آباد کے ڈاسنا میں اسی دیوی مندر کا مہنت ہے جہاں گزشتہ سال 11 مارچ کو ایک مسلم بچے آصف کو نل سے پانی پینے پر بے دردی سے پیٹا گیا تھا اور اس کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ بعد میں مہنت یتی نرسنگھانند نے کہا تھا کہ انہیں اس واقعہ پر کوئی افسوس نہیں ہے۔