#تحریر : مسعودجاوید
25جولائی 2022ء کو ایک نئی شخصیت صدر جمہوریہ ہند کے منصب صدارت پر براجمان ہو گی۔ اس ضمن میں متوقع مسلم شخصیات کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ۔
دستور اور قانون سے قطع نظر ہندوستان اور دیگر سیکولر ممالک میں شمولی معاشرہ کا تقاضہ ہوتا ہے۔ کہ مقننہ ( قانون ساز اداروں پارلیمنٹ اور اسمبلی) عاملہ ( مرکزی اور صوبائی حکومتوں) میں ہر فرقہ کی نمائندگی ہو۔ ہندوستان میں یہ روایت آزادی کے بعد سے چلتی آ رہی ہے لیکن شاید یہ پہلا موقع ہےکہ موجودہ مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ میں مقتدر جماعت کا کوئی ایک بھی مسلم نمائندہ نہیں ہو گا۔
تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی نمائندگی کا اصل مظہر قانون ساز ایوان ، مرکزی اور صوبائی نوکرشاہی ایڈمنسٹریٹیو سروسز اور عدلیہ ہیں نا کہ علامتی منصب ؛ صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہاور ریاستوں کے گورنر ، اس لئے مقتدرہ جماعت اور احزاب مخالف کے ارکان صدر، نائب صدر اور گورنر کے عہدوں کے لئے مسلمانوں کاانتخاب نہ کر کے مسلمانان ہند پر احسان کریں ۔
مسلمانوں کے لئے الگ سے کچھ کر کے مسلم اپیزمنٹ کا تمغہ حاصل کرنے کی بجائے ارباب حل وعقد تعلیمی اور معاشی محاذ پر سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ(مسلمان )کی تعلیمی اور معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے ویلفیئر اسکیم اس طبقہ تک پہنچائیں۔
مذہب کے نام پر بھید بھاؤ اور مستفیدوں کا اعداد و شمار نکالنا گرچہ مناسب نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’’اقلیتوں‘‘ کے لئے جو اسکیمیں ہوتی ہیں بسا اوقات ان سے ’’سب سے بڑی اقلیت مسلم‘‘ محروم رہ جاتی ہے۔ اور دیگر اقلیتیں جو اس فیلڈ میں متحرک ہوتی ہیں وہ بھر پور فائدہ اٹھا لیتی ہیں۔ اس میں غلطی ہماری بھی ہوتی ہے کہ ان اسکیموں کو مانیٹر کرنے اور بروقت اپلائی کرنے کی رہنمائی کرنے کا ہمارے یہاں کوئی میکانزم نہیں ہے۔
ہماری تقریر و تحریر کا محور حکومت کا ’ امتیازی سلوک اور جانبدارانہ رویہ ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے اس سے انکار نہیں ہے لیکن پسماندگی کے صد فیصد اسباب یہی ہیں یہ کہنا بھی درست نہیں ہے۔ ہروقت مظلومیت اور victimhood کا رونا روتے رہناہماری تعلیم و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ناسازگار حالات کو بطور ایک چیلنج لینے والے خموشی سے ترقی کے منازل طے کرتے ہیں۔
ہم کوئی اپوزیشن نہیں ہیں ہر وقت حکومت کو کوسنا جن کا شیوہ ہوتا ہے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں جس کے پاس سب سے بڑی دولت اور طاقت اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے ۔ قرآن ایک ایسا مشعل راہ ہے جو ہمیں سخت حالات اور شدید ترین مشکلات میں گھپ اندھیروں سے نکلنے کا راستہ بتاتا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے کیسے آزمائشوں کا سامنا ہم سے پہلے کے مسلمانوں نے کیا ۔ آج جن حالات کا سامنا ہے مسلمان اس سے بھی بدتر دور سے گزر کر سروائیو کر چکے ہیں…..’’کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری۔‘‘
یہ آزمائش ہی تو ہے کہ پہلے بابری مسجد پھر گئو رکشا کے نام پر ہجومی تشدد ماب لنچنگ،پھر حجاب، پھر حلال اور جھٹکا پھر مندر کے علاقے میں مسلم ٹھیلے اور ریہڑی والوں اور چھوٹی چھوٹی دکانوں پر پابندی اور جب ان تمام حرکات کے باوجود فرقہ پرستوں کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوا پورے ہندوستان میں غیض وغضب سے پر مسلمان سڑکوں پر اتر کر پر تشدد مظاہرے نہیں کئے تو سرخ لکیر کو تجاوز کرکے ہمارے صبر کا امتحان لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان فقر و فاقہ برداشت کر لے گا قیدو بند کی صعوبتیں جھیل لے گا سوشل اور اکنامک بائیکاٹ بھی برداشت کر لے گا لیکن ادنی درجے کا مسلمان بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کرے گا۔ لیکن برداشت نہیں کرنے کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ ہم تشدد پر اتریں ۔ ایک سیکولر ملک اور جمہوری نظام حکومت میں احتجاج کا مہذب طریقہ یہ ہے کہ ہم گستاخی کرنے والوں کے خلاف قانونی طورپر مقرر سزا کا مطالبہ کریں ۔ پولیس اور انتظامیہ کو خبر کر کے اجازت کے بعد پرامن احتجاج کریں ، مرکز میں ، صوبوں میں اور ضلعوں میں متعلقہ ذمہ داران حکومت کو اپنی شکایت اور غم و غصہ سے باخبر کریں اور میمورنڈم دیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)