تحریر :ڈاکٹر طارق ایوبی
کل 58سیٹوں پر پولنگ تھی، یو ٹیوبر صحافیوں نے بہت سے بوتھوں پر پہنچ کر ووٹ دے کر لوٹ رہے لوگوں سے گفتگو کی، متعدد ویڈیوز دیکھنے کے بعد حالات پر امید نظر آئے، لوگوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، صاف صاف کہا کہ بی جے پی صرف جاتی واد اور ہندو مسلم کی سیاست کرتی ہے، کسی نے کہا ہم وکاس کے نام پر ووٹ دے کے آئے ، کسی نے کہا ہم بھائی چارہ اور کسی نے کہا ہم بے روزگاری کے نام پر ووٹ دے کر آئے، کسانوں کا اپنا موضوع تھا۔
صحافیوں نے پوچھا کہ کچھ سیٹوں پر جاٹ مسلم امیدوار بنائے جانے سے ناراض تھے، تو لوگوں نے جواب میں کہا کہ ابتدا میں دو چار لوگ تھے مگر اب سب ٹھیک ہے، بھائی چارہ کے نام پر ووٹ دیا گیا۔
بعض ویڈیوز میں بھاجپائی بھکت، اندھ بھکت اور مہا بھکت بھی نظر آئے ، ان کی گفتگو سن کر محسوس ہوا کہ بی جے پی کا یہ پروپیگنڈہ لوگوں کے ذہن میں بیٹھا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پہلے سے بہتر ہوئی ہے، دراصل بی جے پی نے قدآور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر کے ( خواہ ان پر الزام درست ہو یا سراسر غلط) اس پروپیگنڈہ کو مضبوط کیا ہے کہ ہم نے سارے غنڈوں اور باہو بلیوں کو جیل بھیج دیا ہے۔ سردھنا اور میرٹھ سٹی کے بوتھ پر صحافیوں سے بات کرتے کرتے لوگ آپس میں الجھتے نظر آئے، گپتا جی بھاجپا کے سمرتھن میں بالمیکیوں سے بھڑتے نظر آئے، ایک ہندو عورت اپنے شوہر کے ساتھ یہ کہتی نظر آئی کہ یہ ہندتوا وادی ہم کو ڈراتے ہیں حالانکہ 60سال کی عمر میں کوئی ایک مسلمان ہمیں ایسا نہیں ملا جس نے ہمارے ساتھ برا کیا ہو یا ڈرایا ہو، یہ لوگ مودی یوگی کو جم کے لتاڑ لگاتے نظر آئے۔
میں نے دیر رات تک کوئی 15بوتھوں کے ویڈیوز دیکھے،کل ملا کر ہندوؤں کی گفتگو سے حالات کا رخ پلٹتا نظر آیا ، جب بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشنری مودی کو مسیحا اور ہندو ہردیہ سمراٹ بنانے پر تلی ہو تو اس صورت حال میں ایسے ہندو بھی نظر آئے جو ان کی فرضی لوجک کو واقعی اور حقیقی لوجک سے رد کر رہے تھے ۔
اب ایسے میں کوئی بھاجپا کے بھکتوں کی گفتگو لے اور دوسروں کو کوسنا شروع کر دے تو تجزیہ اور بہادری نہیں بلکہ ایک قسم کا ذہنی تناؤ اور منفیت کا پرچار ہے، منفیت و جذباتیت انسان کو بے چین رکھتی ہے، اور ایسی ذہنیت کی نشونما کرتی ہے جس سے اپنے علاوہ ہر انسان احمق اور دشمن نظر آتا ہے، زندگی خطرے میں نظر آتی ہے، معاشرے میں رہنا دشوار ہو جاتا ہے، منفیت کو فروغ دینے والے عناصر دھیرے دھیرے ذہنی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں، اور اگر یہی منفیت جڑ پکڑ لے تو انسان ڈپریشن کا مریض بن جاتا ہے، خود کشی کر لیتا ہے یا ایسے اقدام کر بیٹھتا ہے جس سے مستقبل تاریک و تاراج ہو جاتا ہے۔اسکے بالمقابل جن میں زندگی کو خوشگوار بنانے کی تڑپ ہوتی ہے، نئی نسل کے مستقبل کے تعمیر کی فکر ہوتی ہے، وہ منفی ماحول سے بھی مثبت نتائج نکال کر عوام کو حوصلہ دیتے ہیں،خطرات کا ادراک کرتے ہیں، دشمن کی حکمت عملی پر نظر رکھتے ہیں، بڑبڑانے اور کوسنے کے بجائے خاموش اور ٹھوس حکمت عملی کے ذریعہ جواب دینے کے بارے میں سوچتے ہیں۔
منفیت کو فروغ دینے والے کسی کا کوئی جملہ اور کسی کے الفاظ پکڑ کر ہمہ وقت ایسے لوگوں کو کوسنے اور لتاڑ لگانے اور القاب دینے میں مصروف رہتے ہیں، حالانکہ ان کا سوشل میڈیا سے ہٹ کر زمین پر موافق و مخالف فریق کے انسانوں سے زمینی و معاشرتی رابطہ بھی نہیں ہوتا، اور نہ ہی انھیں حالات اور مستقبل کی کوئی فکر، بس ان کو دنیا اپنے معہود ذہنی ( Self made mindset)کے رنگ میں رنگی نظر آتی ہے، اور پھر طرفہ یہ کہ اس رنگ کو بدلنے کا ان کے پاس یا تو ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوتا یا ہوائی فائرنگ اور جذباتی و ناقابل عمل تھیوریاں پیش کرتے ہیں ۔ خیر معاشرے کے لیے جمود و تعطل کی شکار قیادت جتنی زیادہ خطرناک ہے اس سے کہیں زیادہ منفیت و جذباتیت کی شکار نئی نسل خطرناک ہے۔ کیوں کہ معروضیت سے خالی اس منفی رویہ کا کوئی مستقبل نہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)