’ایران اور اسرائیل دہائیوں سے پرچھائیوں کے پچھے رہ کر جنگ لڑ رہے ہیں اور ’نہ جنگ، نہ امن‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے اس پالیسی کا اختتام ہونے جا رہا ہے۔ ایرانی حملوں کے جواب میں اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ سخت ردِعمل دے گا اور وزیراعظم نتن یاہو کہتے ہیں کہ: ’ایران نے ایک بڑی غلطی کردی ہے اور اس کی قیمت اسے چُکانی پڑے گی۔‘
اس صورتحال میں ہمیں ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے امریکی حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔رواں برس اپریل میں صدر جو بائیڈن نے ایرانی میزائل حملوں کے بعد اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی تھِی۔ اسرائیل نے اس درخواست پر عمل بھی کیا تھا اور صرف ایک میزائل کے ذریعے وسطی ایران میں دفاعی تنصیب کو نشانہ بنایا تھا۔
لیکن اس مرتبہ صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سُلیون نے خبردار کیا کہ اسرائیلی پر ایرانی حملے کے ’سخت نتائج‘ سامنے آئیں گے اور امریکہ ’اسرائیل کے ساتھ مل تمام چیزیں طے کرے گا۔‘بدھ کو اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی میڈیا نے خبر نشر کی تھی کہ ان کا ملک ’چند دنوں میں‘ ایرانی پر جوابی حملے کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور وہ ایران میں تیل کی ریفائنریوں سمیت متعدد ’سٹریٹیجک مقامات‘ کو نشانہ بنائیں گے۔
اسرائیلی حکام نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کی دھمکی پر عمل کیا تو پھر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جائے گا۔
سینیئر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ اور نیلفوروشن کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا ہے اور یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سوئس سفارتخانے کے ذریعے امریکہ کو پیغام پہنچایا ہے کہ وہ اس معاملے میں ’دخل اندازی نہ کریں۔‘انھوں نے خبردار کیا کہ: ’کوئی بھی ملک جو اسرائیل کی معاونت کرے گا یا ایران کے خلاف اپنی فضائی حدود استعمال کی اجازت دے گا اسے جائز ہدف تصور کیا جائے گا۔‘
مشرقِ وسطیٰ میں تقریباً 40 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور عراق اور شام میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان دونوں ممالک سے ایران کے حمایت یافتہ گروہ امریکی فورسز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ایران کو اب خود کو کسی بھی اسرائیلی حملے کے لیے تیار رکھنا ہوگا اور امید رکھنی ہوگی کہ اس کا کھیلا ہوا جوا کام کر جائے۔