حماس ے ااسرائیل پرحملے ختم نہیں ہو رہے اور غزہ پر اسرائیل کے ۔ یہاں کی تباہی کا منظر خوفناک ہے اور اسے ٹھیک ہونے میں پچاس سال لگیں گے۔ ایسے میں اسرائیلی فوجیوں کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہونے لگا ہے۔ آہستہ آہستہ اسرائیل میں اپنے پیاروں کے لیے آواز بلند ہوتی جا رہی ہے اور ساتھ ہی اپنے پیاروں سے ملنے کی خواہش بھی بلند ہوتی جا رہی ہے۔ لواحقین کو یرغمال بنائے ہوئے دیکھنے کی خواہش کے باعث اب کئی اسرائیلی فوجیوں نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر دیے ہیں۔ اب اسرائیلی حکومت کے لیے جنگ کا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔ ایک غزہ، پھر لبنان اور اب اسرائیلی سرزمین پر اپنے پیاروں کے حوصلے کو برقرار رکھنے کی جنگ…
یروشلم پوسٹ کی خبر کے مطابق ہوا یہ ہے کہ غیر ملکی سرزمین پر اسرائیل کے لیے لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل جلد از جلد حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے کوشش کرے۔ ان فوجیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت جلد از جلد اسرائیلی عوام کی رہائی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کرے۔
ناراض فوجیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اس حوالے سے اسرائیل میں ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت ایک عوامی میمورنڈم تیار کیا گیا ہے۔ اس یادداشت پر دستخط کرنے کے لیے فوجیوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ اب آہستہ آہستہ بہت سے فوجی اس مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ اب تک 150 سے زائد فوجی اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان فوجیوں کا کہنا ہے کہ اگر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی ڈیل نہ کی گئی تو وہ لڑائی سے انکار کر دیں گے۔ ان فوجیوں میں کچھ خواتین فوجی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نشانی کے ساتھ ان کا بطور سپاہی دور ختم ہو رہا ہے۔ کچھ فوجیوں نے ایک دستخط پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت کو یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کرنے کا انتباہ ہے۔
یہ میمورنڈم ملک کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلانٹ، آرمی چیف ہرزی ہیلیوی اور حکومت کے بعض ارکان کو لکھا گیا ہے۔ اس میں واضح مطالبہ ہے کہ جنگ ختم کی جائے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم ریزرو، فعال فوجی، افسران اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایسی جنگ جاری نہیں رکھ سکتے۔ غزہ میں جاری جنگ ہمارے یرغمال بھائیوں اور بہنوں کے لیے موت بن رہی ہے۔